نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    تبسم تُو نہیں حسنِ چارہ ساز تو ہے ۔ صوفی تبسم

    تُو نہیں حسنِ چارہ ساز تو ہے تیری صورت نظر نواز تو ہے تو اگر باوفا نہیں، نہ سہی مجھ کو اپنی وفا پہ ناز تو ہے خود فریبی سہی، وفاداری دل بہلنے کا ایک راز تو ہے سایہ افگن نہیں وہ زلف تو کیا زندگی کی شبِ دراز تو ہے کچھ نہیں داستانِ مہر و وفا گرمیِ حرفِ دل گداز تو ہے کچھ نہ ہو اختلافِ دیر و حرم...
  2. فرخ منظور

    تبسم بجھ گئے سب اِدھر اُدھر کے چراغ ۔ صوفی تبسم

    بجھ گئے سب اِدھر اُدھر کے چراغ پھر بھی روشن ہیں چشمِ تر کے چراغ کیوں لگاتے ہو حسرتوں کا سراغ کیوں جلاتے ہو تم سحر کے چراغ کون اٹھ کر گیا ہے محفل سے بجھ گئے میرے بام و در کے چراغ دل کی تاریکیاں نہ دور ہوئیں جگمگائے بہت نظر کے چراغ شبِ ہجراں کا ساتھ کیا دیتے سو گئے شامِ مختصر کے چراغ نقش تھے...
  3. فرخ منظور

    سمے کا بندھن (افسانہ)۔ ممتاز مفتی

    سمے کا بندھن (ممتاز مفتی) آپی کہا کرتی تھی’’سنہرے ، سمے سمے کی بات ہوتی ہے۔ ہر سمے کا اپنا رنگ، اپنا اثر ہوتا ہے۔ اپنا سمے پہچان، سنہرے۔ اپنے سمے سے باہر نہ نکل۔ جو نکلی تو بھٹک جائے گی۔ اب سمجھ میں آئی آپی کی بات۔ جب سمجھ لیتی تو رستے سے نہ بھٹکتی، آلنے سے نہ گرتی۔ سمجھ تو گئی۔ پر کتنی دیر...
  4. فرخ منظور

    تم آتے پاس تو یوں شرحِ آرزو کرتے ۔ محشر لکھنوی

    تم آتے پاس تو یوں شرحِ آرزو کرتے کہ نذرِ چشم، کلیجے کا ہم لہو کرتے کلیم صرف ارنی کہہ کے ہو گئے خاموش ہزار رنگ سے مطلب کی گفتگو کرتے وہ کہتے ہیں کہ کوئی تو ضرور ہو گی غرض کسی کو یوں نہیں دیکھا ہے دل لہو کرتے تری زباں پہ فدا، تیرے وعدے کے صدقے تمام رات کٹی دل سے گفتگو کرتے رموزِ عشق ہیں کیا...
  5. فرخ منظور

    تبسم اس ضبطِ محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا ۔ صوفی تبسم

    اس ضبطِ محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا ہر آہ میں صورت شیون کی، ہر اشک میں رنگ افسانے کا وہ سحر تھا چشمِ ساقی میں یا مے خواروں کا جذبِ دروں ہر چند بھرے ہیں جام و سبو، وہ رنگ نہیں مے خانے کا کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں، یہ جانتے ہیں سب اہلِ نظر تھا شمع کا آغاز وہی، انجام ہے جو پروانے کا ہوں...
  6. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اندوہِ وفا ۔ مصطفیٰ زیدی

    اندوہِ وفا آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے جِس سے اُس شہر کے پھولوں کی مَہک آتی تھی آج وہ نکہتِ آسودہ لُٹا دی ہم نے عقل جِس قصر میں اِنصاف کیا کرتی تھی آج اُس قصر کی زنجیر ہِلا دی ہم نے آگ کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی خواب کی لہر میں بہتے ہوئے آئے ساحل مُسکراتے ہوئے ہونٹوں کا سُلگتا ہوا کرب...
  7. فرخ منظور

    تبسم کتنی جدائیوں کے کھائے ہیں زخم دل پر ۔ صوفی تبسم

    کتنی جدائیوں کے کھائے ہیں زخم دل پر کتنی محبتوں کے ماتم کیے ہیں ہم نے فرقت کے آنسوؤں سے آنکھوں کو سی لیا ہے کیا کیا حسیں نظارے برہم کیے ہیں ہم نے ہر داغ تازہ شعلہ بن کر بھڑک اٹھا ہے کتنے چراغ غم کے مدھم کیے ہیں ہم نے دن اپنی زندگی کے پہلے ہی مختصر تھے کچھ خود بھی کم ہوئے ہیں کچھ کم کیے ہیں ہم...
  8. فرخ منظور

    بتاؤں کیا کہ میرے دل میں کیا ہے ۔ عزیز لکھنوی

    بتاؤں کیا کہ میرے دل میں کیا ہے سوا تیرے تری محفل میں کیا ہے یہاں بھی تجھ کو تنہا میں نے پایا تُو ہی تُو ہے، بھری محفل میں کیا ہے کسی کے بجھتے دل کی ہے نشانی چراغِ سرحدِ منزل میں کیا ہے بجز نقشِ پشیمانیِ قاتل نگاہِ حسرتِ بسمل میں کیا ہے جفاؤں کی بھی حد ہوتی ہے کوئی خدا معلوم اس کے دل میں کیا...
  9. فرخ منظور

    فدا برقِ نگہ کے آنکھ بھر کر دیکھتے جاؤ ۔ محشر لکھنوی

    فدا برقِ نگہ کے آنکھ بھر کر دیکھتے جاؤ جو دیکھا جائے حالِ قلبِ مضطر دیکھتے جاؤ تمنائے قتیلِ ناز کو دیکھو نہ دیکھو تم نزاکت سے رکا جاتا ہے خنجر، دیکھتے جاؤ ہماری گرد دامانِ ہوا سے اڑتی آتی ہے ذرا اے رہروانِ کوئے دلبر، دیکھتے جاؤ جمالِ دل ربا ہر چند خرمن سوزِ ہستی ہے مگر یہ مقتضائے شوق دم بھر،...
  10. فرخ منظور

    تبسم ستم دیکھتے ہیں، کرم دیکھتے ہیں ، صوفی تبسم

    ستم دیکھتے ہیں، کرم دیکھتے ہیں محبت کے ہم زیر و بم دیکھتے ہیں بہت سن چکے نعرۂ لن ترانی اٹھا دو یہ پردہ کہ ہم دیکھتے ہیں جبیں کو میّسر کہاں سجدہ ریزی ابھی تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں ان الجھی ہوئی رہگزاروں میں بھی ہم تری زلف کے پیچ و خم دیکھتے ہیں مقاماتِ دیر و حرم سے گزر کر تماشائے دیر و حرم...
  11. فرخ منظور

    تبسم عشق بے تاب آرزو ہے ابھی ۔ صوفی تبسّم

    عشق بے تاب آرزو ہے ابھی جانے کس شے کی جستجو ہے ابھی سی لیا چاکِ جیبِ داماں کو چاکِ دل تشنۂ رفو ہے ابھی ہر نفس ایک داستان کہہ دی ہر نفس حرفِ آرزو ہے ابھی یوں نہ ٹھکراؤ درد مندوں کو دہر میں غم کی آبرو ہے ابھی تجھ سے مل کر بھی میری جانِ وفا تجھ سے ملنے کی آرزو ہے ابھی نقش تھے جتنے ہو گئے اوجھل...
  12. فرخ منظور

    سنتا ہے کون کس سے کہیں بزمِ یار میں ۔ محشر لکھنوی

    سنتا ہے کون کس سے کہیں بزمِ یار میں بیٹھے ہی بیٹھے دل نہ رہا اختیار میں کیا کیا تڑپ تڑپ کے پکارے ہیں تم کو ہم کیا کیا اٹھا ہے درد، دلِ بے قرار میں آنکھیں اجل کے بند کیے بھی نہ ہوں گی بند جاگا ہوں اس طرح سے شبِ انتظار میں راس آئے اے خدا دلِ پر شوق کی امنگ جی چاہتا ہے بیٹھے رہیں کوئے یار میں...
  13. فرخ منظور

    مکمل وحشی (افسانہ) ۔ احمد ندیم قاسمی

    وحشی (افسانہ) (تحریر: احمد ندیم قاسمی) ’’آ گئی۔‘‘ ہجوم میں سے کوئی بولا اور سب لوگ یوں دو دو قدم آگے بڑھ گئے جیسے دو دو قدم پیچھے کھڑے رہتے تو کسی غار میں گر جاتے۔ ’’کتنے نمبر والی ہے؟‘‘ ہجوم کے پیچھے سے ایک بڑھیا نے پوچھا۔ ’’پانچ نمبر ہے۔‘‘ بڑھیا کے عقب سے ایک پنواڑی بولا۔ بڑھیا ہڑبڑا کر...
  14. فرخ منظور

    مکمل کلام مجید امجد

    موجِ تبسّم ستاروں کو نہ آتا تھا ابھی تک مسکرا اٹھنا دیے بن کر یوں ایوانِ فلک میں جگمگا اٹھنا حسیں غنچوں کے رنگیں لب تھے ناواقف تبسم سے چمن گونجا نہ تھا اب تک عنادل کے ترنم سے نہ پروانے تھے جلتے شمعِ سوزاں کے شراروں میں نہ آئی تھی ابھی ہمت یہ ننھے جاں نثاروں میں ابھی گہوارۂ ابرِ بہاری میں وہ...
  15. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کہانی ۔ مصطفیٰ زیدی

    " کہانی " بچو ، ہم پر ہنسنے والو ، آؤ تمھیں سمجھائیں جِس کے لئے اس حال کو پُہنچے ، اس کا نام بتائیں رُوپ نگر کی اک رانی تھی ، اس سے ہُوا لگاؤ بچو ، اس رانی کی کہانی سُن لو اور سو جاؤ اُس پر مرنا ، آہیں بھرنا ، رونا ، کُڑھنا ، جلنا آب و ہوا پر زندہ رہنا ، انگاروں پر چلنا ہم جنگل جنگل پھرتے...
  16. فرخ منظور

    مکمل غبار ایّام ۔ فیض احمد فیض

    جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
  17. فرخ منظور

    مکمل گوندنی ۔ غلام عباس

    گوندنی (افسانہ از غلام عباس) مرزا برجیس قدر کو میں ایک عرصے سے جانتا ہوں۔ ہر چند ہماری طبیعتوں اور ہماری سماجی حیثیتوں میں بڑا فرق تھا۔ پھر بھی ہم دونوں دوست تھے۔ مرزا کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جو کسی زمانے میں بہت معزز اور متمول سمجھا جاتا تھا مگر اب اسکی حالت اس پرانے تناور درخت کی سی ہو...
  18. فرخ منظور

    تبسم رخسار و لب کی بات نہ زلف و کمر کی بات ۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم

    رخسار و لب کی بات نہ زلف و کمر کی بات رنگینیِ جمال ہے حسنِ نظر کی بات کیا کیا فسانہ ہائے تمنّا ہوئے دراز کیا کیا بڑھی ہے زندگیِ مختصر کی بات صبحِ شبِ وصال ہو یا شامِ انتظار آخر وہی ہے گردشِ شام و سحر کی بات سایوں میں سو گئے ہیں شبستان کے خیال اِک خواب سی ہے جلوہ گہِ بام و در کی بات رہ رہ کے...
  19. فرخ منظور

    مکمل دوزخی (خاکہ: عظیم بیگ چغتائی) ۔ تحریر عصمت چغتائی

    عصمت چغتائی کا اپنے ادیب بھائی عظیم بیگ چغتائی کی موت پر ایک خاکہ۔ (سعادت حسن منٹو کا اقتباس اس خاکہ کے بارے میں ’’ساقی‘‘ میں ’’دوزخی‘‘ چھپا۔ میری بہن نے پڑھا اور مجھ سے کہا۔’’سعادت! یہ عصمت کتنی بے ہودہ ہے۔ اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں چھوڑا کم بخت نے۔ کیسی کیسی فضول باتیں لکھی ہیں۔‘‘ میں نے...
  20. فرخ منظور

    مکمل نجات ۔ منشی پریم چند

    نجات (منشی پریم چند) دکھی چمار دروازے پر جھاڑ رہا تھااور اس کی بیوی جھُریا گھر کو لیپ رہی تھی۔دونوں اپنے اپنے کام سے فراغت پا چکے تو چمارِن نے کہا۔ ’’تو جا کر پنڈت با با سے کہہ آؤ ۔ ایسا نہ ہو کہیں چلے جائیں ‘‘۔دُکھی : ہاں جاتا ہوں لیکن یہ تو سوچ کہ بیٹھیں گے کس چیز پر؟‘‘ جُھریا: کہیں سے کوئی...
Top