تبسم بجھ گئے سب اِدھر اُدھر کے چراغ ۔ صوفی تبسم

فرخ منظور

لائبریرین
بجھ گئے سب اِدھر اُدھر کے چراغ
پھر بھی روشن ہیں چشمِ تر کے چراغ

کیوں لگاتے ہو حسرتوں کا سراغ
کیوں جلاتے ہو تم سحر کے چراغ

کون اٹھ کر گیا ہے محفل سے
بجھ گئے میرے بام و در کے چراغ

دل کی تاریکیاں نہ دور ہوئیں
جگمگائے بہت نظر کے چراغ

شبِ ہجراں کا ساتھ کیا دیتے
سو گئے شامِ مختصر کے چراغ

نقش تھے میری جبّہ سائی کے
بن گئے رہ گزر کے چراغ

پھر چراغاں ہوا ہے داغوں کا
پھر فروزاں ہیں میرے گھر کے چراغ

کیا فسوں تھا ترے تبسؔم کا
مسکرائے نظر نظر کے چراغ​
 
Top