فرخ منظور
لائبریرین
خدا کی قسم
(سعادت حسن منٹو)
اِدھر سے مسلمان اور اُدھر سے ہندو ابھی تک آ جا رہے تھے۔ کیمپوں کے کیمپ بھرے پڑے تھے۔ جن میں تل دھرنے کے لیے واقعی کوئی جگہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ان میں ٹھونسے جا رہے تھے۔ غلّہ ناکافی ہے۔ حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہیں۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں اس کا ہوش کس کو تھا۔ ایک افراط و تفریط کا عالم تھا۔
سن اڑتالیس کا آغاز تھا۔ غالباً مارچ کا مہینہ۔ اِدھر اوراُدھر دونوں طرف رضاکاروں کے ذریعے سے مغویہ عورتوں اور بچوں کی برآمدگی کا مستحسن کام شروع ہو چکا تھا۔ سینکڑوں مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں اس کارِ خیر میں حصہ لے رہے تھے۔ میں جب ان کو سرگرمِ عمل دیکھتا تو مجھے بڑی تعجب خیز مسّرت حاصل ہوتی۔ یعنی خود انسان، انسان کی برائیوں کے آثار مٹانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ جو عصمتیں لُٹ چکی تھیں ان کو مزید لوٹ کھسوٹ سے بچانا چاہتا تھا۔ کس لِئے؟... اس لئے کہ اس کا دامن مزید دھبّوں اور داغوں سے آلودہ نہ ہو۔۔۔؟ اس لیے کہ وہ جلدی جلدی اپنی خون سے لتھڑی ہوئی انگلیاں چاٹ لے اور اپنے ہم جنسوں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر روٹی کھائے؟۔۔۔ اس لئے کہ وہ انسانیت کا سوئی دھاگا لے کر جب تک دوسرے آنکھیں بند کئے ہیں، عصمتوں کے چاک رُفو کر دے؟
کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن ان رضاکاروں کی جدوجہد پھر بھی قابلِ قدر معلوم ہوتی تھی۔
ان کو سینکڑوں دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہزاروں کھیکڑ ے تھے جو اُنہیں اُٹھانے پڑتے تھے۔ کیونکہ جنہوں نے عورتیں اور لڑکیاں اُڑائی تھیں، سیماب پاتھے۔ آج اِدھر کل اُدھر۔ ابھی اس محلے میں، ابھی اُس محلے میں اور پھر آس پاس کے آدمی بھی ان کی مدد نہیں کرتے تھے۔
عجیب عجیب داستانیں سننے میں آتی تھیں۔ ایک لیاژاں افسر نے مجھے بتایا کہ سہارنپور میں دو لڑکیوں نے پاکستان میں اپنے والدین کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ دوسرے نے بتایا کہ جب جالندھر میں زبردستی ہم نے ایک لڑکی کو نکالا تو قابض کے سارے خاندان نے اسے یوں الوداع کہی جیسے وہ ان کی بہو ہے اور کسی دُور دراز سفر پر جا رہی ہے۔۔۔ کئی لڑکیوں نے راستے میں والدین کے خوف سے خود کشی کر لی۔ بعض صدموں کی تاب نہ لا کر پاگل ہو چکی تھیں۔ کچھ ایسی بھی تھیں جن کو شراب کی لت پڑ چکی تھی۔ ان کو پیاس لگتی تو پانی کی بجائے شراب مانگتیں اور ننگی گالیاں بکتیں۔
میں ان برآمد کی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کے متعلق سوچتا تو میرے ذہن میں صرف پھولے ہوئے پیٹ اُبھرتے۔ ان پیٹوں کا کیا ہو گا۔ ان میں جو کچھ بھرا ہے اس کا مالک کون ہے۔۔۔ پاکستان یا ہندوستان؟
اور وہ نو مہینے کی باربرداری۔۔۔۔۔۔ اس کی اُجرت پاکستان ادا کرے گا یا ہندوستان؟ کیا یہ سب ظالم فطرت یا قدرت کے بہی کھاتے میں درج ہو گا؟۔۔۔۔۔۔ مگر کیا اس میں کوئی صفحہ خالی رہ گیا ہے؟
برآمدہ عورتیں آ رہی تھیں۔ برآمدہ عورتیں جا رہی تھیں۔
میں سوچتا تھا کہ یہ عورتیں مغویہ کیوں کہلائی جاتی تھیں۔ انہیں اغوا کب کیا گیا ہے؟۔۔۔ اغوا تو ایک بڑا رومانٹک فعل ہے، جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہوتے ہیں۔ یہ تو ایک ایسی کھائی ہے جس کو پھاندنے سے پہلے دونوں روحوں کے سارے تار جھنجھنا اُٹھتے ہیں۔ لیکن یہ اغوا کیسا ہے کہ ایک نہتّی کو پکڑ کر کوٹھری میں قید کر لیا۔
لیکن وہ زمانہ ایسا تھا کہ منطق، استدلال اور فلسفہ بیکار چیزیں تھیں۔ ان دنوں جس طرح لوگ گرمیوں میں بھی دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے سوتے تھے اسی طرح میں نے بھی اپنے دل و دماغ کی سب کھڑکیاں دروازے بند کر دیے تھے حالانکہ انہیں کھلا رکھنے کی زیادہ ضرورت اِسی وقت تھی... لیکن میں کیا کرتا... مجھے کچھ سُوجھتا نہیں تھا۔
برآمدہ عورتیں آر ہی تھیں۔ برآمدہ عورتیں جا رہی تھیں۔
یہ درآمد اور برآمد جاری تھی۔ تمام تاجرانہ خصوصیات کے ساتھ!
اور صحافی افسانہ نگار اور شاعر اپنے قلم اُٹھائے شکار میں مصروف تھے۔ لیکن افسانوں اور نظموں کا ایک سیلاب تھا جو اُمنڈتا چلا آ رہا تھا۔ قلموں کے قدم اُکھڑ اُکھڑ جاتے تھے۔ اتنے صید تھے کہ سب بوکھلا گئے تھے۔
ایک لیاژاں افسر مجھ سے ملا۔ کہنے لگا ’’تم کیوں گُم سُم رہتے ہو؟‘‘
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
اس نے مجھے ایک داستان سنائی
’’مغویہ عورتوں کی تلاش میں ہم مارے مارے پھرتے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں پھر تیسرے گاؤں۔ پھر چوتھے۔ گلی گلی، محلے محلے ، کوچے کوچے، بڑی مشکلوں سے گوہرِ مقصود ہاتھ آتا ہے۔‘‘
میں نے دل میں کہا۔ ’’کیسے گوہر ۔۔۔ گوہر ناسفتہ۔۔۔ یا سفتہ؟‘‘
’’تمہیں معلوم نہیں، ہمیں کتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ لیکن میں تمہیں ایک بات بتانے والا تھا۔۔۔ ہم بارڈر کے اس پار سینکڑوں پھیرے کر چکے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ میں نے ہر پھیرے میں ایک بڑھیا کو دیکھا۔ ایک مسلمان بڑھیا کو۔۔۔ ادھیڑ عمر کی تھی۔۔۔ پہلی مرتبہ میں نے اسے جالندھر کی بستیوں میں دیکھا۔ پریشان حال، ماؤف دماغ۔ ویران ویران آنکھیں۔ گردوغبار سے اَٹے ہوئے بال، پھٹے ہوئے کپڑے۔ اسے تن کاہوش تھا نہ مَن کا۔ لیکن اس کی نگاہوں سے یہ صاف ظاہر تھا کہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں۔
مجھے ۔۔۔ بہن نے بتایا کہ یہ عورت صدمے کے باعث پاگل ہو گئی ہے۔ پٹیالہ کی رہنے والی ہے۔ اس کی اکلوتی لڑکی تھی جو اسے نہیں ملتی۔ ہم نے بہت جتن کئے ہیں اسے ڈھونڈنے کے لیے مگر ناکام رہے ہیں۔ غالباً بلوؤں میں ماری گئی ہے مگر یہ بڑھیا نہیں مانتی۔
دوسری مرتبہ میں نے اس پگلی کو سہارنپور کے لاریوں کے اڈے پر دیکھا۔ اس کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ ابتر اور خستہ تھی۔ اس کے ہونٹوں پر موٹی موٹی پپڑیاں جمی تھیں۔ بال سادھوؤں کے سے بنے تھے۔ میں نے اس سے بات چیت کی اور چاہا کہ وہ اپنی موہوم تلاش چھوڑ دے، چنانچہ میں نے اس غرض سے بہت سنگدل بن کر اس سے کہا۔
’’مائی تیری لڑکی قتل کر دی گئی تھی۔‘‘
پگلی نے میری طرف دیکھا۔
’’قتل ؟ ۔۔۔۔۔۔نہیں‘‘۔
اس کے لہجے میں فولادی تیقُّن پیدا ہو گیا۔
’’اسے کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ میری بیٹی کو کوئی قتل نہیں کر سکتا۔‘‘
اور وہ چلی گئی۔ اپنی موہوم تلاش میں۔
میں نے سوچا... ایک تلاش اور پھر موہوم!۔۔۔ لیکن پگلی کو کیوں اتنا یقین تھا کہ اس کی بیٹی پر کوئی کرپان نہیں اُٹھ سکتی۔ کوئی تیز دھارچھرا اسکی گردن کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ کیا وہ امر تھی ۔۔۔ یا کیا اس کی ممتا امر تھی۔۔۔ مامتا تو خیر امر ہوتی ہے پھر کیا وہ اپنی مامتا ڈھونڈ رہی تھی۔ کیا اس نے اسے کہیں کھو دیا۔۔۔؟
تیسرے پھیرے پر میں نے اُسے پھر دیکھا۔ اب وہ بالکل چیتھڑوں میں تھی۔ قریب قریب ننگی۔ میں نے اس کو کپڑے دےئے مگر اس نے قبول نہ کئے۔
میں نے اس سے کہا۔ ’’مائی میں سچ کہتا ہوں تیری لڑکی پٹیالے ہی میں قتل کر دی گئی تھی۔‘‘
اس نے پھر اسی فولادی تیقّن کے ساتھ کہا۔ ’’تو جھوٹ کہتا ہے‘‘۔
میں نے اس سے اپنی بات منوانے کی خاطر کہا۔ ’’نہیں میں سچ کہتا ہوں۔ کافی رو پیٹ لیا ہے تم نے۔۔۔ چلو میرے ساتھ میں تم کو پاکستان لے چلوں گا‘‘۔
اس نے میری بات نہ سُنی اور بُڑبَڑانے لگی۔ بُربَڑاتے ہوئے ایک دم چونکی۔ اب اس کے لہجے میں تیقّن فولاد سے بھی زیادہ ٹھوس تھا۔
’’نہیں۔۔۔ میری بیٹی کو کوئی قتل نہیں کر سکتا!‘‘
میں نے پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘
بڑھیا نے ہولے ہولے کہا۔ ’’وہ خوبصورت ہے۔ اتنی خوبصورت ہے کہ اسے کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ اسے طمانچہ تک نہیں مار سکتا‘‘۔
میں سوچنے لگا۔ ’’کیا واقعی وہ اتنی خوبصورت تھی؟۔ ہر ماں کی آنکھوں یں اس کی اولاد چندے آفتاب چندے مہتاب ہوتی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے وہ لڑکی درحقیقت خوبصورت ہو۔ مگر اس طوفان میں کونسی خوبصورتی ہے جو انسان کے کھردرے ہاتھوں سے بچی ہے۔ ہو سکتا ہے پگلی اس خیالِ خام کو دھوکا دے رہی ہو۔ فرار کے لاکھوں راستے ہیں۔ دُکھ ایک ایسا چوک ہے جو اِردگرد لاکھوں بلکہ کروڑوں سڑکوں کا جال بُن دیتا ہے۔‘‘
بارڈر کے اس پار کئی پھیرے ہوئے۔ ہر بار میں نے اس پگلی کو دیکھا۔ اب وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی تھی۔ بینائی کمزور ہو چکی تھی۔ ٹٹول ٹٹول کر چلتی تھی مگر اس کی تلاش جاری تھی۔ بڑی شدّومد سے اس کا یقین اسی طرح مستحکم تھا کہ اس کی بیٹی زندہ ہے... اس لیے کہ... اسے کوئی مار نہیں سکتا۔
بہن نے مجھ سے کہا کہ اس عورت سے مغز ماری فضول ہے۔ اس کا دماغ چل چکا ہے بہتریہی ہے کہ تم اسے پاکستان لے جاؤ اورپاگل خانے میں داخل کرا دو۔
میں نے مناسب نہ سمجھا۔ اُس کی موہوم تلاش جو اُس کی زندگی کا واحد سہارا تھی، میں اس سے چھیننا نہیں چاہتا تھا۔ میں اسے ایک وسیع و عریض پاگل خانے سے ،جس میں وہ مِیلوں کی مسافت طے کر کے اپنے پاؤں کے آبلوں کی پیاس بجھا سکتی تھی، اٹھا کر ایک مختصر سی چار دیواری میں قید کرانا نہیں چاہتا تھا۔
آخری بار میں نے اسے امرتسر میں دیکھا۔ اس کی شکستہ حالی کا یہ عالم تھا کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے پاکستان لے جاؤں گا اور پاگل خانے میں داخل کرا دوں گا۔
وہ فریدچوک میں کھڑی اپنی نیم اندھی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ چوک میں کافی چہل پہل تھی۔ میں ۔۔۔ بہن کے ساتھ ایک دکان پر بیٹھا ایک مغویہ لڑکی کے متعلق بات چیت کر رہا تھا۔ جس کے متعلق ہمیں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ بازار صبونیاں میں ایک ہندو بنئے کے گھر موجود ہے۔ یہ گفتگو ختم ہوئی تو میں اُٹھا کہ اس پگلی سے جھوٹ سچ کہہ کر اسے پاکستان جانے کے لیے آمادہ کروں کہ ایک جوڑا اُدھر سے گزرا۔ عورت نے گھونگھٹ کاڑھا ہوا تھا۔ چھوٹا ساگھونگھٹ۔ اس کے ساتھ ایک سکھ نوجوان تھا۔ بڑا چھیل چھبیلا۔ بڑا تندرست اور تیکھے تیکھے نقشوں والا۔
جب وہ دونوں اس پگلی کے پاس سے گزرے تو نوجوان ایک دم ٹھٹک گیا۔ اس نے دو قدم پیچھے ہٹ کر عورت کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کچھ اس اچانک طور پر کہ لڑکی نے اپنا چھوٹا سا گھونگھٹ اُٹھایا۔ لٹھّے کی دُھلی ہوئی سفید چادر کے چوکھٹے میں مجھے ایک ایسا گلابی چہرہ نظر آیا، جس کا حسن بیان کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔
میں ان کے بالکل پاس تھا۔ سکھ نوجوان نے اس حُسن و جمال کی دیوی سے اس پگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔ ’’تمہاری ماں!‘‘
لڑکی نے ایک لخطے کے لیے پگلی کی طرف دیکھا اور گھونگھٹ چھوڑ لیا اور سکھ نوجوان کا بازو پکڑ کر بھنچے ہوئے لہجے میں کہا: ’’چلو...‘‘
اور وہ دونوں سڑک سے ذرا ادھر ہٹ کر تیزی سے آگے نکل گئے۔ پگلی چلائی۔ ’’بھاگ بھری۔ بھاگ بھری!‘‘
وہ سخت مضطرب تھی۔۔۔ میں نے پاس جا کر اس سے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے مائی...؟‘‘
وہ کانپ رہی تھی۔ ’’میں نے اس کو دیکھا ہے۔۔۔ میں نے اس کو دیکھا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا : ’’کسے؟‘‘
اس کے ماتھے کے نیچے دو گڑھوں میں اس کی آنکھوں کے بے نور ڈھیلے متحرک تھے۔ ’’اپنی بیٹی کو۔۔۔ بھاگ بھری کو!‘‘
میں نے پھر اس سے کہا۔ ’’وہ مرکھپ چکی ہے مائی۔‘‘
اس نے چیخ کر کہا۔ ’’تم جھوٹ کہتے ہو!‘‘
میں نے اس مرتبہ اس کوپورا یقین دلانے کی خاطر کہا۔
’’خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں... وہ مر چکی ہے!‘‘
یہ سنتے ہی وہ پگلی چوک میں ڈھیر ہو گئی۔
(سعادت حسن منٹو)
اِدھر سے مسلمان اور اُدھر سے ہندو ابھی تک آ جا رہے تھے۔ کیمپوں کے کیمپ بھرے پڑے تھے۔ جن میں تل دھرنے کے لیے واقعی کوئی جگہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ان میں ٹھونسے جا رہے تھے۔ غلّہ ناکافی ہے۔ حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہیں۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں اس کا ہوش کس کو تھا۔ ایک افراط و تفریط کا عالم تھا۔
سن اڑتالیس کا آغاز تھا۔ غالباً مارچ کا مہینہ۔ اِدھر اوراُدھر دونوں طرف رضاکاروں کے ذریعے سے مغویہ عورتوں اور بچوں کی برآمدگی کا مستحسن کام شروع ہو چکا تھا۔ سینکڑوں مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں اس کارِ خیر میں حصہ لے رہے تھے۔ میں جب ان کو سرگرمِ عمل دیکھتا تو مجھے بڑی تعجب خیز مسّرت حاصل ہوتی۔ یعنی خود انسان، انسان کی برائیوں کے آثار مٹانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ جو عصمتیں لُٹ چکی تھیں ان کو مزید لوٹ کھسوٹ سے بچانا چاہتا تھا۔ کس لِئے؟... اس لئے کہ اس کا دامن مزید دھبّوں اور داغوں سے آلودہ نہ ہو۔۔۔؟ اس لیے کہ وہ جلدی جلدی اپنی خون سے لتھڑی ہوئی انگلیاں چاٹ لے اور اپنے ہم جنسوں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر روٹی کھائے؟۔۔۔ اس لئے کہ وہ انسانیت کا سوئی دھاگا لے کر جب تک دوسرے آنکھیں بند کئے ہیں، عصمتوں کے چاک رُفو کر دے؟
کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن ان رضاکاروں کی جدوجہد پھر بھی قابلِ قدر معلوم ہوتی تھی۔
ان کو سینکڑوں دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہزاروں کھیکڑ ے تھے جو اُنہیں اُٹھانے پڑتے تھے۔ کیونکہ جنہوں نے عورتیں اور لڑکیاں اُڑائی تھیں، سیماب پاتھے۔ آج اِدھر کل اُدھر۔ ابھی اس محلے میں، ابھی اُس محلے میں اور پھر آس پاس کے آدمی بھی ان کی مدد نہیں کرتے تھے۔
عجیب عجیب داستانیں سننے میں آتی تھیں۔ ایک لیاژاں افسر نے مجھے بتایا کہ سہارنپور میں دو لڑکیوں نے پاکستان میں اپنے والدین کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ دوسرے نے بتایا کہ جب جالندھر میں زبردستی ہم نے ایک لڑکی کو نکالا تو قابض کے سارے خاندان نے اسے یوں الوداع کہی جیسے وہ ان کی بہو ہے اور کسی دُور دراز سفر پر جا رہی ہے۔۔۔ کئی لڑکیوں نے راستے میں والدین کے خوف سے خود کشی کر لی۔ بعض صدموں کی تاب نہ لا کر پاگل ہو چکی تھیں۔ کچھ ایسی بھی تھیں جن کو شراب کی لت پڑ چکی تھی۔ ان کو پیاس لگتی تو پانی کی بجائے شراب مانگتیں اور ننگی گالیاں بکتیں۔
میں ان برآمد کی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کے متعلق سوچتا تو میرے ذہن میں صرف پھولے ہوئے پیٹ اُبھرتے۔ ان پیٹوں کا کیا ہو گا۔ ان میں جو کچھ بھرا ہے اس کا مالک کون ہے۔۔۔ پاکستان یا ہندوستان؟
اور وہ نو مہینے کی باربرداری۔۔۔۔۔۔ اس کی اُجرت پاکستان ادا کرے گا یا ہندوستان؟ کیا یہ سب ظالم فطرت یا قدرت کے بہی کھاتے میں درج ہو گا؟۔۔۔۔۔۔ مگر کیا اس میں کوئی صفحہ خالی رہ گیا ہے؟
برآمدہ عورتیں آ رہی تھیں۔ برآمدہ عورتیں جا رہی تھیں۔
میں سوچتا تھا کہ یہ عورتیں مغویہ کیوں کہلائی جاتی تھیں۔ انہیں اغوا کب کیا گیا ہے؟۔۔۔ اغوا تو ایک بڑا رومانٹک فعل ہے، جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہوتے ہیں۔ یہ تو ایک ایسی کھائی ہے جس کو پھاندنے سے پہلے دونوں روحوں کے سارے تار جھنجھنا اُٹھتے ہیں۔ لیکن یہ اغوا کیسا ہے کہ ایک نہتّی کو پکڑ کر کوٹھری میں قید کر لیا۔
لیکن وہ زمانہ ایسا تھا کہ منطق، استدلال اور فلسفہ بیکار چیزیں تھیں۔ ان دنوں جس طرح لوگ گرمیوں میں بھی دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے سوتے تھے اسی طرح میں نے بھی اپنے دل و دماغ کی سب کھڑکیاں دروازے بند کر دیے تھے حالانکہ انہیں کھلا رکھنے کی زیادہ ضرورت اِسی وقت تھی... لیکن میں کیا کرتا... مجھے کچھ سُوجھتا نہیں تھا۔
برآمدہ عورتیں آر ہی تھیں۔ برآمدہ عورتیں جا رہی تھیں۔
یہ درآمد اور برآمد جاری تھی۔ تمام تاجرانہ خصوصیات کے ساتھ!
اور صحافی افسانہ نگار اور شاعر اپنے قلم اُٹھائے شکار میں مصروف تھے۔ لیکن افسانوں اور نظموں کا ایک سیلاب تھا جو اُمنڈتا چلا آ رہا تھا۔ قلموں کے قدم اُکھڑ اُکھڑ جاتے تھے۔ اتنے صید تھے کہ سب بوکھلا گئے تھے۔
ایک لیاژاں افسر مجھ سے ملا۔ کہنے لگا ’’تم کیوں گُم سُم رہتے ہو؟‘‘
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
اس نے مجھے ایک داستان سنائی
’’مغویہ عورتوں کی تلاش میں ہم مارے مارے پھرتے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں پھر تیسرے گاؤں۔ پھر چوتھے۔ گلی گلی، محلے محلے ، کوچے کوچے، بڑی مشکلوں سے گوہرِ مقصود ہاتھ آتا ہے۔‘‘
میں نے دل میں کہا۔ ’’کیسے گوہر ۔۔۔ گوہر ناسفتہ۔۔۔ یا سفتہ؟‘‘
’’تمہیں معلوم نہیں، ہمیں کتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ لیکن میں تمہیں ایک بات بتانے والا تھا۔۔۔ ہم بارڈر کے اس پار سینکڑوں پھیرے کر چکے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ میں نے ہر پھیرے میں ایک بڑھیا کو دیکھا۔ ایک مسلمان بڑھیا کو۔۔۔ ادھیڑ عمر کی تھی۔۔۔ پہلی مرتبہ میں نے اسے جالندھر کی بستیوں میں دیکھا۔ پریشان حال، ماؤف دماغ۔ ویران ویران آنکھیں۔ گردوغبار سے اَٹے ہوئے بال، پھٹے ہوئے کپڑے۔ اسے تن کاہوش تھا نہ مَن کا۔ لیکن اس کی نگاہوں سے یہ صاف ظاہر تھا کہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں۔
مجھے ۔۔۔ بہن نے بتایا کہ یہ عورت صدمے کے باعث پاگل ہو گئی ہے۔ پٹیالہ کی رہنے والی ہے۔ اس کی اکلوتی لڑکی تھی جو اسے نہیں ملتی۔ ہم نے بہت جتن کئے ہیں اسے ڈھونڈنے کے لیے مگر ناکام رہے ہیں۔ غالباً بلوؤں میں ماری گئی ہے مگر یہ بڑھیا نہیں مانتی۔
دوسری مرتبہ میں نے اس پگلی کو سہارنپور کے لاریوں کے اڈے پر دیکھا۔ اس کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ ابتر اور خستہ تھی۔ اس کے ہونٹوں پر موٹی موٹی پپڑیاں جمی تھیں۔ بال سادھوؤں کے سے بنے تھے۔ میں نے اس سے بات چیت کی اور چاہا کہ وہ اپنی موہوم تلاش چھوڑ دے، چنانچہ میں نے اس غرض سے بہت سنگدل بن کر اس سے کہا۔
’’مائی تیری لڑکی قتل کر دی گئی تھی۔‘‘
پگلی نے میری طرف دیکھا۔
’’قتل ؟ ۔۔۔۔۔۔نہیں‘‘۔
اس کے لہجے میں فولادی تیقُّن پیدا ہو گیا۔
’’اسے کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ میری بیٹی کو کوئی قتل نہیں کر سکتا۔‘‘
اور وہ چلی گئی۔ اپنی موہوم تلاش میں۔
میں نے سوچا... ایک تلاش اور پھر موہوم!۔۔۔ لیکن پگلی کو کیوں اتنا یقین تھا کہ اس کی بیٹی پر کوئی کرپان نہیں اُٹھ سکتی۔ کوئی تیز دھارچھرا اسکی گردن کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ کیا وہ امر تھی ۔۔۔ یا کیا اس کی ممتا امر تھی۔۔۔ مامتا تو خیر امر ہوتی ہے پھر کیا وہ اپنی مامتا ڈھونڈ رہی تھی۔ کیا اس نے اسے کہیں کھو دیا۔۔۔؟
تیسرے پھیرے پر میں نے اُسے پھر دیکھا۔ اب وہ بالکل چیتھڑوں میں تھی۔ قریب قریب ننگی۔ میں نے اس کو کپڑے دےئے مگر اس نے قبول نہ کئے۔
میں نے اس سے کہا۔ ’’مائی میں سچ کہتا ہوں تیری لڑکی پٹیالے ہی میں قتل کر دی گئی تھی۔‘‘
اس نے پھر اسی فولادی تیقّن کے ساتھ کہا۔ ’’تو جھوٹ کہتا ہے‘‘۔
میں نے اس سے اپنی بات منوانے کی خاطر کہا۔ ’’نہیں میں سچ کہتا ہوں۔ کافی رو پیٹ لیا ہے تم نے۔۔۔ چلو میرے ساتھ میں تم کو پاکستان لے چلوں گا‘‘۔
اس نے میری بات نہ سُنی اور بُڑبَڑانے لگی۔ بُربَڑاتے ہوئے ایک دم چونکی۔ اب اس کے لہجے میں تیقّن فولاد سے بھی زیادہ ٹھوس تھا۔
’’نہیں۔۔۔ میری بیٹی کو کوئی قتل نہیں کر سکتا!‘‘
میں نے پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘
بڑھیا نے ہولے ہولے کہا۔ ’’وہ خوبصورت ہے۔ اتنی خوبصورت ہے کہ اسے کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ اسے طمانچہ تک نہیں مار سکتا‘‘۔
میں سوچنے لگا۔ ’’کیا واقعی وہ اتنی خوبصورت تھی؟۔ ہر ماں کی آنکھوں یں اس کی اولاد چندے آفتاب چندے مہتاب ہوتی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے وہ لڑکی درحقیقت خوبصورت ہو۔ مگر اس طوفان میں کونسی خوبصورتی ہے جو انسان کے کھردرے ہاتھوں سے بچی ہے۔ ہو سکتا ہے پگلی اس خیالِ خام کو دھوکا دے رہی ہو۔ فرار کے لاکھوں راستے ہیں۔ دُکھ ایک ایسا چوک ہے جو اِردگرد لاکھوں بلکہ کروڑوں سڑکوں کا جال بُن دیتا ہے۔‘‘
بارڈر کے اس پار کئی پھیرے ہوئے۔ ہر بار میں نے اس پگلی کو دیکھا۔ اب وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی تھی۔ بینائی کمزور ہو چکی تھی۔ ٹٹول ٹٹول کر چلتی تھی مگر اس کی تلاش جاری تھی۔ بڑی شدّومد سے اس کا یقین اسی طرح مستحکم تھا کہ اس کی بیٹی زندہ ہے... اس لیے کہ... اسے کوئی مار نہیں سکتا۔
بہن نے مجھ سے کہا کہ اس عورت سے مغز ماری فضول ہے۔ اس کا دماغ چل چکا ہے بہتریہی ہے کہ تم اسے پاکستان لے جاؤ اورپاگل خانے میں داخل کرا دو۔
میں نے مناسب نہ سمجھا۔ اُس کی موہوم تلاش جو اُس کی زندگی کا واحد سہارا تھی، میں اس سے چھیننا نہیں چاہتا تھا۔ میں اسے ایک وسیع و عریض پاگل خانے سے ،جس میں وہ مِیلوں کی مسافت طے کر کے اپنے پاؤں کے آبلوں کی پیاس بجھا سکتی تھی، اٹھا کر ایک مختصر سی چار دیواری میں قید کرانا نہیں چاہتا تھا۔
آخری بار میں نے اسے امرتسر میں دیکھا۔ اس کی شکستہ حالی کا یہ عالم تھا کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے پاکستان لے جاؤں گا اور پاگل خانے میں داخل کرا دوں گا۔
وہ فریدچوک میں کھڑی اپنی نیم اندھی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ چوک میں کافی چہل پہل تھی۔ میں ۔۔۔ بہن کے ساتھ ایک دکان پر بیٹھا ایک مغویہ لڑکی کے متعلق بات چیت کر رہا تھا۔ جس کے متعلق ہمیں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ بازار صبونیاں میں ایک ہندو بنئے کے گھر موجود ہے۔ یہ گفتگو ختم ہوئی تو میں اُٹھا کہ اس پگلی سے جھوٹ سچ کہہ کر اسے پاکستان جانے کے لیے آمادہ کروں کہ ایک جوڑا اُدھر سے گزرا۔ عورت نے گھونگھٹ کاڑھا ہوا تھا۔ چھوٹا ساگھونگھٹ۔ اس کے ساتھ ایک سکھ نوجوان تھا۔ بڑا چھیل چھبیلا۔ بڑا تندرست اور تیکھے تیکھے نقشوں والا۔
جب وہ دونوں اس پگلی کے پاس سے گزرے تو نوجوان ایک دم ٹھٹک گیا۔ اس نے دو قدم پیچھے ہٹ کر عورت کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کچھ اس اچانک طور پر کہ لڑکی نے اپنا چھوٹا سا گھونگھٹ اُٹھایا۔ لٹھّے کی دُھلی ہوئی سفید چادر کے چوکھٹے میں مجھے ایک ایسا گلابی چہرہ نظر آیا، جس کا حسن بیان کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔
میں ان کے بالکل پاس تھا۔ سکھ نوجوان نے اس حُسن و جمال کی دیوی سے اس پگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔ ’’تمہاری ماں!‘‘
لڑکی نے ایک لخطے کے لیے پگلی کی طرف دیکھا اور گھونگھٹ چھوڑ لیا اور سکھ نوجوان کا بازو پکڑ کر بھنچے ہوئے لہجے میں کہا: ’’چلو...‘‘
اور وہ دونوں سڑک سے ذرا ادھر ہٹ کر تیزی سے آگے نکل گئے۔ پگلی چلائی۔ ’’بھاگ بھری۔ بھاگ بھری!‘‘
وہ سخت مضطرب تھی۔۔۔ میں نے پاس جا کر اس سے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے مائی...؟‘‘
وہ کانپ رہی تھی۔ ’’میں نے اس کو دیکھا ہے۔۔۔ میں نے اس کو دیکھا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا : ’’کسے؟‘‘
اس کے ماتھے کے نیچے دو گڑھوں میں اس کی آنکھوں کے بے نور ڈھیلے متحرک تھے۔ ’’اپنی بیٹی کو۔۔۔ بھاگ بھری کو!‘‘
میں نے پھر اس سے کہا۔ ’’وہ مرکھپ چکی ہے مائی۔‘‘
اس نے چیخ کر کہا۔ ’’تم جھوٹ کہتے ہو!‘‘
میں نے اس مرتبہ اس کوپورا یقین دلانے کی خاطر کہا۔
’’خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں... وہ مر چکی ہے!‘‘
یہ سنتے ہی وہ پگلی چوک میں ڈھیر ہو گئی۔