سرمد صہبائی

  1. فرحان محمد خان

    غزل : ہو لاگ درمیاں تو کوئی دل بھی تب لگائے - سرمد صہبائی

    غزل ہو لاگ درمیاں تو کوئی دل بھی تب لگائے بیٹھے رہو امید یونہی بے سبب لگائے جو قرض ہجر سونپ گیا عُمر کے عوض شرطِ وصال اس سے کہیں بے طلب لگائے کس جیبِ احتیاط میں رکھیں متاعِ دل بیٹھا نہیں کہاں پہ وہ رہزن نقب لگائے کھلتا نہیں ہے عقدہ شبِ انتظار کا یاروں نے داو پیچ یہاں سب کے سب لگائے چاروں طرف...
  2. فرحان محمد خان

    غزل : غبارِ خواب نقشِ رایگاں رہنے دیا ہوتا - سرمد صہبائی

    غزل غبارِ خواب نقشِ رایگاں رہنے دیا ہوتا کوئی تو میرے ہونے کا نشاں رہنے دیا ہوتا اے شامِ ہجر جو کچھ چھینا تھا چھین لیتی تُو کسی کے لوٹ آنا کا گماں رہنے دیا ہوتا ہم آشفتہ سروں پر اس زمیں نے تنگ ہونا تھا تو پھر سر پر ذرا سا آسماں رہنے دیا ہوتا کنارِ مرگ سب رکتے مگر آوارگی تُو نے ہمیں اس...
  3. فرحان محمد خان

    غزل : خود مرا عکس مجھے اجنبی دکھلائی دے - سرمد صہبائی

    غزل خود مرا عکس مجھے اجنبی دکھلائی دے کون ہو گا جو مجھے میری شناسائی دے پھر وہی دشت کے ہاتھوں میں چمکتا ہے سراب پھر وہی آنکھیں مری پانی ہی دکھلائی دے اے مرے شہر لے سب رونقیں واپس اپنی اور مجھے میرا وہی کوشۂ تنہائی دے میری آنکھوں سے کہاں نکلیں گے لعل و گوہر ہاں اگر مجھ کو سمندر کی سی...
  4. فرحان محمد خان

    غزل : شہرِ جاں کی سیڑھیوں پر در بدر بکھرئے ہوئے - سرمدؔ صہبائی

    غزل شہرِ جاں کی سیڑھیوں پر در بدر بکھرئے ہوئے راکھ ہوتی خواہشوں کے بال و پر بکھرئے ہوئے دُور تک اس خاک پر کچھ نقش ہیں مٹتے ہوئے اور کچھ پتے کنارِ رہ گزر بکھرئے ہوئے چاند رکتا ہے نہ آنگن میں ٹھہرتی ہے ہوا ہیں کہاں جانے پہ میرے ہم سفر بکھرئے ہوئے اہتمامِ ہجر ، تزئینِ تمنا ، حسنِ غم جس طرف...
  5. فرحان محمد خان

    غزل : زخم ہے یا گُہر نہیں کھلتا - سرمدؔ صہبائی

    غزل زخم ہے یا گُہر نہیں کھلتا عشق بن یہ ہنر نہیں کھلتا ہم تو بیٹھے ہیں رختِ جاں باندھے اور خوابِ سفر نہیں کھلتا دستکیں دے کے ہار جاتا ہوں اپنے ہی گھر کا در نہیں کھلتا دیکھتا کیا ہے سوختہ جاں کو یہ دُھواں آنکھ پر نہیں کھلتا کون چلتا ہے ساتھ ساتھ اپنے بھید یہ عمر بھر نہیں کھلتا ہم...
  6. فرحان محمد خان

    غزل : دل درد سے سیراب تھا اور آنکھ میں نم تھا - سرمدؔ صہبائی

    غزل دل درد سے سیراب تھا اور آنکھ میں نم تھا اس جاں کے بیایاں میں کوئی سبز قدم تھا تم رنگِ تماشا میں مجھے دیکھ رہے تھے میں جس میں رواں تھا وہ کوئی خوابِ عدم تھا یہ عمر تو اک ہجرِ مسلسل ہے مری جاں ہم جس میں ملے تھے وہ کوئی اور جنم تھا عریاں گلِ مہتاب تھا قامت کے افق ہر اک چڑھتے بہاؤ میں...
  7. فرحان محمد خان

    غزل : عمر میں اک لمحۂ نایاب تھا گُم ہو گیا - سرمدؔ صہبائی

    غزل عمر میں اک لمحۂ نایاب تھا گُم ہو گیا دل کو ہم سمجھائیں کیا وہ خواب تھا گُم ہو گیا دن کے رستوں پر وہی تھا جسم سائے میں رواں وہ جو پوری رات کا مہتاب تھا گُم ہو گیا آنکھ میں دھندلا گئے صحرا نوردوں کے نشاں اک دِیا جو محرمِ محراب تھا گُم ہو گیا عمر بھر سر پھوڑتی پھرتی رہے گی تشنگی دشت...
  8. فرحان محمد خان

    غزل : دستارِ خود سری میں ہوں ننگِ کفن میں ہوں - سرمدؔ صہبائی

    غزل دستارِ خود سری میں ہوں ننگِ کفن میں ہوں کھلتا نہیں نجانے میں کس پیرہن میں ہوں رہتا ہے مجھ سے میرا ہی ہمزاد ہمکلام تنہا ہوں اور پھر بھی کسی انجمن میں ہوں دل پر ہیں میری بجھتی ہوئی خواہشوں کے داغ ہوں آفتاب سایہِ جبرِ گہن میں ہوں گل کر رہا ہے کون مری آتشِ فراق نارِ ہوس میں کس کی بہشتِ بدن...
  9. فرحان محمد خان

    غزل : حصارِ ہوش میں خوابوں کے در رکھے گئے ہیں - سرمد صہبائی

    غزل حصارِ ہوش میں خوابوں کے در رکھے گئے ہیں کوئی رستہ نہیں ہے، اور سفر رکھے گئے ہیں گہر آتا ہے آغوشِ صدف میں بوند بن کر زمین و آسماں میں نامہ بر رکھے گئے ہیں مصور نقشِ غفلت میں ہوا ہے شہرِ جاناں مکیں ہم اس میں خود سے بے خبر رکھے گئے ہیں بسنتی دُھوپ آنگن میں سمٹ کر سو رہی ہے ہَوا کے دوش پر...
  10. فرحان محمد خان

    غزل : اک سخن اپنا کہ ہے رسمِ سخن سے باہر - سرمدؔ صہبائی

    غزل اک سخن اپنا کہ ہے رسمِ سخن سے باہر پھول خود رو ہے کوئی صحنِ چمن سے باہر تھا کسی بوسۂ نادید کا حیراں موسم گرمیِ آب اڑی لعلِ دہن سے باہر اور منزل تھی کوئی منزلِ جاں سے آگے دشت اک اور تھا قدموں کی تھکن سے باہر جاگتے میں بھی اسے خواب کی صورت دیکھوں شام سی رہتی ہے اس سانولے پن سے باہر...
  11. فرحان محمد خان

    غزل : ہوا کے لمس میں پھولوں کا جیسے دم بدلتا ہے - سرمد صہبائی

    غزل ہوا کے لمس میں پھولوں کا جیسے دم بدلتا ہے اسے چھوتے ہی سارے جسم کا موسم بدلتا ہے یونہی شام و سحر کے پیچ رک جاتا ہے اک لمحہ اچانگ چلتے چلتے راستے کا خم بدلتا ہے اسی بابِ فنا سے روز اک خلقت گزرتی ہے ہزاروں راستے ہر روز پھر آدم بدلتا ہے کرشمہ ہے کوئی یہ اس بتِ آذرؔ کے بوسے کا کہ شعلہ...
  12. فرحان محمد خان

    غزل : عرصۂ خواب میں ہوں ہوش سے رخصت ہے مجھے - سرمد صہبائی

    غزل (غالب کے 'اندازِ بیاں' میں غالب کی نذر) عرصۂ خواب میں ہوں ہوش سے رخصت ہے مجھے گردشِ شام و سحر ساغرِ غفلت ہے مجھے اک مری لغزشِ پا سے ہے زمانے کو خرام نغمۂ شہرِ سخن وقفۂ لکنت ہے مجھے کیوں ہو تنہائی میسر تجھے اے دل کے جہاں خود مرا سایہ بھی ہنگامۂ کثرت ہے مجھے رونقِ باغِ عدم ہے مرے مرنے...
  13. فرحان محمد خان

    غزل : اس بار چلی سرد ہوا اور ذرا تیز - سرمد صہبائی

    غزل اس بار چلی سرد ہوا اور ذرا تیز پیڑوں سے ہوئے پھول جدا اور ذرا تیز سنسان اندھیرے میں دھڑکتا تھا مرا دل تھی دشت میں قدموں کی صدا اور ذرا تیز اس زلف کےگھنگور میں ہونٹوں کی لپک تھی جلتا تھا اندھیرے میں دیا اور ذرا تیز سانسوں میں الجھتی رہی موہوم سی لکنت رکھ رکھ کے کوئی کہتا رہا اور ذرا...
  14. فرحان محمد خان

    غزل : آنکھوں کے سامنے کوئی تصویر ہُو بہُو - سرمد صہبائی

    غزل (نذرِ سراج اورنگ آبادی) آنکھوں کے سامنے کوئی تصویر ہُو بہُو کُھلتی ہے میرے خواب کی تعبیر ہُو بہُو چشمِ سیہ وہ زلفِ گرہ گیر ہُو بہُو نظارۂ طلسمِ اساطیر ہُو بہُو بالوں کے درمیاں برہنہ ہوئی وہ مانگ کُھبتی چلی گئی کوئی شمشیر ہُو بہُو بوسہ خدا گواہ اس آتش پرست کا ہے موسمِ بہشت کی تاثیر ہُو...
  15. فرحان محمد خان

    غزل : ظاہر نہیں ہوں حرفِ نمایاں کے آس پاس - سرمد صبہائی

    غزل ظاہر نہیں ہوں حرفِ نمایاں کے آس پاس میں نقش ہوں کتابتِ نسیاں کے آس پاس ہم ایسے غرقِ عشق تھے ہم کو خبر نہ تھی کچھ اور غم بھی ہیں غمِ جاناں کے آس پاس اک تم نہیں جو گُم ہو زمانے کی بھیڑ میں ہم بھی ہیں ایک شہرِ پریشاں کے آس پاس فُرصت ہمیں مدارتِ گُل کی نہ مل سکی پھرتی رہی بہار بیاباں کے آس...
  16. فرحان محمد خان

    غزل : اک دمِ گُزراں سے عُمرِ مختصر باندھے ہوئے - سرمد صبہائی

    غزل اک دمِ گُزراں سے عُمرِ مختصر باندھے ہوئے خاک سے ہیں شاخِ گل کو بے خبر باندھے ہوئے اک خمارِ عکس میں لرزاں ہے آبِ آئینہ سحرِ حیرانی ہے کوئی فتنہ گر باندھے ہوئے دور تک آنکھوں میں کوئی راستہ کھلتا نہیں اور ہم صدیوں سے ہیں رختِ سفر باندھے ہوئے اوڑھنی سینے کے آدھے موڑ پر ڈھلکی ہوئی بال...
  17. فرحان محمد خان

    غزل : بناتی ہے نظر تصویرِ آب آہستہ آہستہ - سرمد صبہائی

    غزل بناتی ہے نظر تصویرِ آب آہستہ آہستہ کہ ہے پھر تشنگی محوِ سراب آہستہ آہستہ اکیلی شام یوں گلیوں مکانوں سے گزرتی ہے پھرے سینے میں جیسے اضطراب آہستہ آہستہ شبِ تنہا نجانے میں کسے آواز دیتا ہوں نجانے کون دیتا ہے جواب آہستہ آہستہ ترے ہوتے ہوئے دنیا کا ہم کو غم نہ تھا لیکن ہوا پھر ایک یہ غم بے...
  18. فرحان محمد خان

    غزل : دشت میں ہے ایک نقشِ رہ گزر سب سے الگ - سرمد صبہائی

    غزل دشت میں ہے ایک نقشِ رہ گزر سب سے الگ ہم میں ہے شاید کوئی محوِِ سفر سب سے الگ چلتے چلتے وہ بھی آخر بھیڑ میں گم ہو گیا وہ جو ہر صورت میں آتا تھا نظر سب سے الگ سب کی اپنی منزلیں تھیں سب کے اپنے راستے ایک آوارہ پھرے ہم دربدر سب سے الگ بند ہیں گلیوں میں گلیاں ہیں گھروں سے گھر جدا ہے...
  19. فرحان محمد خان

    غزل : کُھلا ہے سینۂ گُل ، ہے چراغِ مشک بُو عُریاں - سرمد صہبائی

    غزل کُھلا ہے سینۂ گُل ، ہے چراغِ مشک بُو عُریاں کوئی پہلوئے شب میں ہو رہا ہے ہُو بُہو عُریاں کلی کے نرم تَالو میں کوئی نقشِ دمیدہ ہے حجابِ نیم وا میں ہے کوئی شوقِ نمُو عُریاں ہُمکتی ہے بلوغت کی مہک اُس کُجِ کمسن میں خمِ زہرہ پہ ہوتا ہے غُبارِ سبز مُو عُریاں عجب اک خلوتِ دیدار میں گم ہو...
  20. فلک شیر

    وہ پھول کاڑھتی رہی............سرمد صہبائی

    وہ پھول کاڑھتی رہی خزاں کی زرد شال پر وہ پھول کاڑھتی رہی اُجڑتے ماہ و سال پر وہ پھول کاڑھتی رہی دِلوں کے مرغزار میں عجب اُداس شام تھی گزرتے پل کے ہونٹ پر وہ منتشر سا نام تھی دکھوں کی تند دھار پر لہولہان انگلیاں مگر وہ سانس سانس اپنی عمر کے لباس پر لہو کشیدتی رہی گلاب سینچتی رہی خزاں کی زرد شال...
Top