غزل : اک سخن اپنا کہ ہے رسمِ سخن سے باہر - سرمدؔ صہبائی

غزل
اک سخن اپنا کہ ہے رسمِ سخن سے باہر
پھول خود رو ہے کوئی صحنِ چمن سے باہر

تھا کسی بوسۂ نادید کا حیراں موسم
گرمیِ آب اڑی لعلِ دہن سے باہر

اور منزل تھی کوئی منزلِ جاں سے آگے
دشت اک اور تھا قدموں کی تھکن سے باہر

جاگتے میں بھی اسے خواب کی صورت دیکھوں
شام سی رہتی ہے اس سانولے پن سے باہر

چاندنی رات میں دھندلاتی ہے بوندوں کی پھوار
کھینچ کر پاؤں وہ رکھتا ہے لگن سے باہر

ساحلِ جاں سے کوئی موج سی ٹکراتی ہے
ایک خواہش ہے امڈتی ہے بدن سے باہر

آتشِ رشک سے گل ہوتا رہا روئے چمن
قامتِ یار کھلی سر و سمن سے باہر

خالِ غائب رحِ حیرت پہ دھڑکتا دیکھوں
آنکھ ٹھہرے نہ ترے نقش و نَین سے باہر

چاند ابھرا تو بھنور بنتے گئے پانی پر
ہالۂ رقص بنا رقصِ کرن سے باہر

کیا کوئی خواب ہے اس چشمِ تماشا سے پرے
ایک تارا جو دمکتا ہے گگن سے باہر

جانے وہ لوٹ کے گھر آئے نہ آئے سرمدؔ
ایک بیٹا مرا رہتا ہے وطن سے باہر
سرمدؔ صہبائی
 
Top