غزل : دشت میں ہے ایک نقشِ رہ گزر سب سے الگ - سرمد صبہائی

غزل
دشت میں ہے ایک نقشِ رہ گزر سب سے الگ
ہم میں ہے شاید کوئی محوِِ سفر سب سے الگ

چلتے چلتے وہ بھی آخر بھیڑ میں گم ہو گیا
وہ جو ہر صورت میں آتا تھا نظر سب سے الگ

سب کی اپنی منزلیں تھیں سب کے اپنے راستے
ایک آوارہ پھرے ہم دربدر سب سے الگ

بند ہیں گلیوں میں گلیاں ہیں گھروں سے گھر جدا
ہے کوئی شہر میں شہرِ دگر سب سے الگ

ایک ان ہونے سمے کو اوڑھ کر آتی ہے شام
ان دریچوں پر اترتی ہے سحر سب سے الگ

ہے رہ و رسم زمانہ پردۂ بیگانگی
درمیاں رہتا ہوں میں سب کے مگر سب سے الگ

دے کے عادت رنج کی ہوتا ہے مجھ پر مہرباں
اس ستم گر نے یہ سیکھا ہے ہنر سب سے الگ

ان گنت جلووں سے ہیں کون و مکاں روشن مگر
دل کے خاکستر سے اُڑتا ہے شرر سب سے الگ

شہرِ کثرت میں عجب اک روزنِ خلوت کھلا
اس نے جو دیکھا مجھے اک لمحہ بھر سب سے الگ

سرسراتا ہے بہشتِ جاں میں خواہش کا شجر
اس کی شاخوں پر اترتا ہے ثمر سب سے الگ

مست پھر باغِ تحیر میں ہے طاؤسِ سخن
ہو بہو کھلتے ہیں اس کے بال و پر سب سے الگ

ہر کوئی شامل ہوا سرمدؔ جلوسِ عام میں
منہ اٹھائے چل دیا ہے تو کدھر سب سے الگ
سرمد صبہائی
 
Top