غزل : دل درد سے سیراب تھا اور آنکھ میں نم تھا - سرمدؔ صہبائی

غزل
دل درد سے سیراب تھا اور آنکھ میں نم تھا
اس جاں کے بیایاں میں کوئی سبز قدم تھا

تم رنگِ تماشا میں مجھے دیکھ رہے تھے
میں جس میں رواں تھا وہ کوئی خوابِ عدم تھا

یہ عمر تو اک ہجرِ مسلسل ہے مری جاں
ہم جس میں ملے تھے وہ کوئی اور جنم تھا

عریاں گلِ مہتاب تھا قامت کے افق ہر
اک چڑھتے بہاؤ میں اترتا ہوا خم تھا

اس خلوتِ شیریں میں تھی نمکین سی حیرت
سرمہ سی زمستاں میں گلِ سرخ کا نم تھا

لاحق ہو ہمیں وسوسۂ سود و زیاں کیا
لا حاصلِ جاں تو نہ کبھی بیش نہ کم تھا

رکھتا تھا وہ پاؤں کے دھڑکتا تھا مرا دل
کھلتی ہوئی کاکل تھی کہ رکتا ہوا دم تھا

اک دشت پرے دشت ہویدا سے تھا جس میں
رفتارِ غزالاں کا کوئی اور ہی رَم تھا

اک لذتِ بے نام سے سرشار تھے سرمدؔ
کھٹکا تھا خوشی کا نہ ہمیں خطرۂ غم تھا
سرمدؔ صہبائی
 
Top