غزل : اس بار چلی سرد ہوا اور ذرا تیز - سرمد صہبائی

غزل
اس بار چلی سرد ہوا اور ذرا تیز
پیڑوں سے ہوئے پھول جدا اور ذرا تیز

سنسان اندھیرے میں دھڑکتا تھا مرا دل
تھی دشت میں قدموں کی صدا اور ذرا تیز

اس زلف کےگھنگور میں ہونٹوں کی لپک تھی
جلتا تھا اندھیرے میں دیا اور ذرا تیز

سانسوں میں الجھتی رہی موہوم سی لکنت
رکھ رکھ کے کوئی کہتا رہا اور ذرا تیز

اک آتشِ لذت میں پگھلتا ہوا مہتاب
بارش میں کھلی بندِ قبا اور ذرا تیز

آہٹ تھی کہ سایہ کہ تری یاد کی دستک
اس دل کا دریچہ جو کھلا اور ذرا تیز

وہ مانگ کہ تھی جیسے برہنہ کوئی شمشیر
کاجل تھا کہ مژگاں پہ کھنچا اور ذرا تیز

اس ہانپتے سینے پہ ٹھہرتا نہ تھا آنچل
چڑھتی تھی ہتھیلی پہ حنا اور ذرا تیز

آنکھوں میں کسی ڈوبتے تارے کی چمک تھی
دل میں کوئی دریا تھا بہا اور ذرا تیز

پھر سنگِ ملامت سے بدن چور تھا سرمدؔ
اس گل سے مگر زخم لگا اور ذرا تیز
سرمد صہبائی
 
Top