غزل : خود مرا عکس مجھے اجنبی دکھلائی دے - سرمد صہبائی

غزل
خود مرا عکس مجھے اجنبی دکھلائی دے
کون ہو گا جو مجھے میری شناسائی دے

پھر وہی دشت کے ہاتھوں میں چمکتا ہے سراب
پھر وہی آنکھیں مری پانی ہی دکھلائی دے

اے مرے شہر لے سب رونقیں واپس اپنی
اور مجھے میرا وہی کوشۂ تنہائی دے

میری آنکھوں سے کہاں نکلیں گے لعل و گوہر
ہاں اگر مجھ کو سمندر کی سی گہرائی دے

ہے دلِ زار کا مقسوم وہی ہجر و وصال
تو اگر مجھ کو کبھی اپنی سی یکتائی دے

وحشتِ شوق سے تزئینِ دلِ سادہ کر
حسنِ معصوم کو اندازِ خود آرائی دے

نقشِ نادیدہ کو بھی منظرِ دیدار میں لا
حرفِ محروم کو بھی جلوۂ رُشنائی دے

مجھ کو بخشا ہے اگر آئینۂ صبح سخن
شب گزیدہ کو بھی تو لذتِ بینائی دے

جشنِ تعزیر نہ ہے عیدِ ملامت سرمدؔ
کون اس شہر کو اب صحبتِ رسوائی دے
سرمد صہبائی
 
Top