غزل : ہوا کے لمس میں پھولوں کا جیسے دم بدلتا ہے - سرمد صہبائی

غزل
ہوا کے لمس میں پھولوں کا جیسے دم بدلتا ہے
اسے چھوتے ہی سارے جسم کا موسم بدلتا ہے

یونہی شام و سحر کے پیچ رک جاتا ہے اک لمحہ
اچانگ چلتے چلتے راستے کا خم بدلتا ہے

اسی بابِ فنا سے روز اک خلقت گزرتی ہے
ہزاروں راستے ہر روز پھر آدم بدلتا ہے

کرشمہ ہے کوئی یہ اس بتِ آذرؔ کے بوسے کا
کہ شعلہ اور گل کا ذائقہ باہم بدلتا ہے

یہ کیسا شہر ہے مجھ سے گریزاں ہے مرا سایا
ہجومِ ناشناساں میں رُخِ محرم بدلتا ہے

ردائے ابر میں مہتاب ہے یا روئے جاناں ہے
نہیں کھلتا کہ ہر پل دید کا عالم بدلتا ہے

خبر ملتی نہیں دل کو نہ کھونے کی نہ پانے کی
مرے ہونے نہ ہونے کا نشاں مدھم بدلتا ہے

ٹھہرتی ہے کنارِ مرگ کب آوارگی دل کی
عدم کی دشت میں آہوئے جاں کا رم بدلتا ہے

وہی عشوہ گری ہے اور وہی رسمِ عزاداری
یہاں طرزِ طرب نہ شیوۂ ماتم بدلتا ہے

زیاں ہے ہجر کا سرمدؔ نہ نقدِ وصل کی خواہش
بہائے رائیگاں میں خوفِ بیش و کم بدلتا ہے
سرمد صہبائی
 
Top