غزل : زخم ہے یا گُہر نہیں کھلتا - سرمدؔ صہبائی

غزل
زخم ہے یا گُہر نہیں کھلتا
عشق بن یہ ہنر نہیں کھلتا

ہم تو بیٹھے ہیں رختِ جاں باندھے
اور خوابِ سفر نہیں کھلتا

دستکیں دے کے ہار جاتا ہوں
اپنے ہی گھر کا در نہیں کھلتا

دیکھتا کیا ہے سوختہ جاں کو
یہ دُھواں آنکھ پر نہیں کھلتا

کون چلتا ہے ساتھ ساتھ اپنے
بھید یہ عمر بھر نہیں کھلتا

ہم ہیں معصوم کس قدر ہم پر
عقدۂ خیر و شر نہیں کھلتا

ہے یہ سرمدؔ دمِ سخن اس کا
ہر کسی پر اثر نہیں کھلتا
سرمدؔ صہبائی
 
Top