غزل : ظاہر نہیں ہوں حرفِ نمایاں کے آس پاس - سرمد صبہائی

غزل
ظاہر نہیں ہوں حرفِ نمایاں کے آس پاس
میں نقش ہوں کتابتِ نسیاں کے آس پاس

ہم ایسے غرقِ عشق تھے ہم کو خبر نہ تھی
کچھ اور غم بھی ہیں غمِ جاناں کے آس پاس

اک تم نہیں جو گُم ہو زمانے کی بھیڑ میں
ہم بھی ہیں ایک شہرِ پریشاں کے آس پاس

فُرصت ہمیں مدارتِ گُل کی نہ مل سکی
پھرتی رہی بہار بیاباں کے آس پاس

محرم ہیں اس کے جیسے کوئی آفتاب ہے
ٹکتی نہیں نگاہ گریباں کے آس پاس

سگریٹ ہیں ادھ جلے ہوئے کاغذ ہیں کچھ شراب
اور ہم پڑے ہیں اس سر و ساماں کے آس پاس

اُوندھا پڑا ہے ساغرِ مہتاب فرش پر
بکھرا ہے پیراہن تنِ عُریاں کے آس پاس

مرتا ہوں روز اس پہ جو دیتا ہے زندگی
رہتی ہے پیاس چشمۂ حیواں کے آس پاس

اُس گل بدن کو چوم رہا ہوں میں بار بار
وحشت میں لب ہیں لذتِ پنہاں کے آس پاس

چلتا ہے ابر پاؤں کی رفتار دیکھ کر
غش میں روش ہے یارِ خراماں کے آس پاس

ہر سمت ایک موسمِ نادید ہے مگر
دیدار سا ہے پردۂ حیراں کے آس پاس

نکلی ہے مجھ کو شامِ بلا ڈھونڈتی ہوئی
اُڑتی ہے راکھ خیمۂ ہجراں کے آس پاس

رکھے ہے بد نظر سے مرے ماہ رُو کو دُور
اک خالِ سبز چاہ زنخداں کے آس پاس

شہرِ طرب میں ڈھونڈتے پھرتے ہو تم کہاں
ہم ہیں کسی ہجومِ خراباں کے آس پاس

سرمدؔ تھا ایک شورِ بیاں شہر میں مگر
سارے سخن تھے اک لبِ لرزاں کے آس پاس
سرمد صبہائی
 
آخری تدوین:
Top