غزل : ہو لاگ درمیاں تو کوئی دل بھی تب لگائے - سرمد صہبائی

غزل
ہو لاگ درمیاں تو کوئی دل بھی تب لگائے
بیٹھے رہو امید یونہی بے سبب لگائے

جو قرض ہجر سونپ گیا عُمر کے عوض
شرطِ وصال اس سے کہیں بے طلب لگائے

کس جیبِ احتیاط میں رکھیں متاعِ دل
بیٹھا نہیں کہاں پہ وہ رہزن نقب لگائے

کھلتا نہیں ہے عقدہ شبِ انتظار کا
یاروں نے داو پیچ یہاں سب کے سب لگائے

چاروں طرف ہے آگ مگر درمیانِ شہر
بیٹھا ہے یار مجلسِ جشنِ طرب لگائے

بازارِ عشق سرد پڑا نذرِ جاں کے بعد
اب کوئی نقدِ نام یا نقدِ نسب لگائے

پھرتے ہیں لے کے بنتِ فضاحت کو میرزاؔ
اپنے تیئں خدائے سخن کا لقب لگائے

اس خوانچۂ سخن پہ تو سرمدؔ گزر نہیں
اُس سے کہیں ہمیں وہ کسی اور ڈھب لگائے
سرمد صہبائی
 
Top