غزل : عرصۂ خواب میں ہوں ہوش سے رخصت ہے مجھے - سرمد صہبائی

غزل
(غالب کے 'اندازِ بیاں' میں غالب کی نذر)

عرصۂ خواب میں ہوں ہوش سے رخصت ہے مجھے
گردشِ شام و سحر ساغرِ غفلت ہے مجھے

اک مری لغزشِ پا سے ہے زمانے کو خرام
نغمۂ شہرِ سخن وقفۂ لکنت ہے مجھے

کیوں ہو تنہائی میسر تجھے اے دل کے جہاں
خود مرا سایہ بھی ہنگامۂ کثرت ہے مجھے

رونقِ باغِ عدم ہے مرے مرنے کا خمار
لذتِ آبِ فنا وعدۂ جنت ہے مجھے

اس خمِ زلف سے کُھلتا ہے مقدر میرا
ظلمتِ چشم سیہ مطلعِ قسمت ہے مجھے

گردِ صحرا ہے کوئی سر پہ مرے ابرِ نشاط
رقصِ دیوار و مکاں شوخیِ وحشت ہے مجھے

دل کو یک رنگیِ عالم سے جدا رکھتا ہے
اک تصور جو ترا موسمِ حیرت ہے مجھے

بسترِ درد بچھاتا ہوں تو نیند آتی ہے
زیر سر سنگِ جنوں بالشِ راحت ہے مجھے

جلوۂ دار دکھاتا ہے مجھے نخلِ بہار
غمزۂ لالہ و گل سنگِ ملامت ہے مجھے

بس کہ بیماریِ جاں میں بھی آرام سے ہوں
آمدِ شامِ بلا عیدِ عیادت ہے مجھے

منتِ مُرگ ہو کیوں تو ہی بتا شامِ فراق
جب کہ ہر روز یونہی مرنے کی عادت ہے مجھے

جب سے لاحاصلِ جاں حاصلِ جاں ٹھہرا ہے
تنگیِ فکرِ فراواں سے فراغت ہے مجھے

غزوۂ ہجر کی اس معرکہ آرائی میں
گوہرِ اشک دُرِ زخم غنیمت ہے مجھے

کیوں معاصر نہ ہو وہ غالبِؔ آشفتہ مرا
میں ہوں پوشیدہ ولی کفر سے نسبت ہے مجھے

جلسۂ رسمِ سخن عام ہے لیکن سرمدؔ
اس کی آوازِ کہن لہجۂ جدت ہے مجھے
سرمدؔ صہبائی
 
آخری تدوین:
Top