غزل : بناتی ہے نظر تصویرِ آب آہستہ آہستہ - سرمد صبہائی

غزل
بناتی ہے نظر تصویرِ آب آہستہ آہستہ
کہ ہے پھر تشنگی محوِ سراب آہستہ آہستہ

اکیلی شام یوں گلیوں مکانوں سے گزرتی ہے
پھرے سینے میں جیسے اضطراب آہستہ آہستہ

شبِ تنہا نجانے میں کسے آواز دیتا ہوں
نجانے کون دیتا ہے جواب آہستہ آہستہ

ترے ہوتے ہوئے دنیا کا ہم کو غم نہ تھا لیکن
ہوا پھر ایک یہ غم بے حساب آہستہ آہستہ

ہوئی رنگیں کسی کے پرتوِ دیدار سے چلمن
پلک بُنتی رہی اک تارِ خواب آہستہ آہستہ

تری کھڑکی پہ تجھ کو دیکھنے جب رات رکتی ہے
گزرتا ہے گلی سے ماہتاب آہستہ آہستہ

کسے تھی فرصتِ ہجراں کسے یوں عشق لاحق تھا
ہوا ہے حال اس دل کا خراب آہستہ آہستہ

اڑاتا ہے مجھے رخشِ جنوں دوشِ قیامت پر
کہ برقِ تیز تر ہے ہم رکاب آہستہ آہستہ

ہمیں مرنے کی خواہش اور وہ مرنے نہیں دیتا
عجب ظالم ہے دیتا ہے عذاب آہستہ آہستہ

خمارِ لمس تھا ڈھلتا گیا عُمروں کی مستی میں
ہوئی یہ بے کراں موجِ شراب آہستہ آہستہ

کہاں ہم اور کہاں یہ عالمِ سحرِ بیاں سرمدؔ
کوئی پڑھتا ہے اِس دل کی کتاب آہستہ آہستہ
سرمدؔ صبہائی
 
آخری تدوین:
Top