غزل : عمر میں اک لمحۂ نایاب تھا گُم ہو گیا - سرمدؔ صہبائی

غزل
عمر میں اک لمحۂ نایاب تھا گُم ہو گیا
دل کو ہم سمجھائیں کیا وہ خواب تھا گُم ہو گیا

دن کے رستوں پر وہی تھا جسم سائے میں رواں
وہ جو پوری رات کا مہتاب تھا گُم ہو گیا

آنکھ میں دھندلا گئے صحرا نوردوں کے نشاں
اک دِیا جو محرمِ محراب تھا گُم ہو گیا

عمر بھر سر پھوڑتی پھرتی رہے گی تشنگی
دشت میں اک پل کو نقشِ آب تھا گُم ہو گیا

جانے اب کس رخ اترتی ہے پرندوں کی قطار
میرے گھر کے صحن میں تالاب تھا گُم ہو گیا

کثرتِ زاغ و زغن کے شور میں سرمدؔ کہیں
اک سخن تیرا پرِ سرخاب تھا گُم ہو گیا
سرمدؔ صہبائی
 
Top