جون ایلیا

  1. طارق شاہ

    جون ایلیا : اِک ہُنر ہے جو کر گیا ہُوں مَیں :

    غزل جون ایلیا اِک ہُنر ہے جو کر گیا ہُوں مَیں سب کے دِل سے اُتر گیا ہُوں مَیں کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کرُوں! سُن رہا ہُوں کہ گھر گیا ہُوں مَیں کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا جیتے جی جب سے مر گیا ہُوں مَیں اب ہے بس اپنا سامنا در پیش ہر کسی سے گزر گیا ہُوں مَیں وہی ناز و ادا وہی غمزے سر بہ...
  2. فرخ منظور

    جون ایلیا طفلانِ کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں ۔ جون ایلیا

    طفلانِ کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں سودا بھی ایک وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا یعنی میں لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں بس اک غبارِ وہم ہے اک کوچہ گرد کا دیوار بود کچھ نہیں اور در بھی کچھ نہیں یہ شہرِ دار و محتسب و مولوی ہی کیا پیرِ مغان و رند و...
  3. منیب فیض

    محبت ہوتے ہوتے، اک ندامت ہو گئی آخر (جون ایلیا)

    محبت ہوتے ہوتے، اک ندامت ہو گئی آخر ندامت ہوتے ہوتے، اک اذیت ہو گئی آخر عجب انداز سے طے مرحلے دل کے کیے ہم نے جو دل کی نازبرداری تھی، نفرت ہو گئی آخر بھلا معلوم کیا ہوگا اسے، اس کی جدائی میں ہمیں خود اپنے شکووں سے، شکایت ہو گئی آخر کمینے ہو گئے جذبے، ہوئے بدنام خواب اپنے کبھی اس سے، کبھی...
  4. منہاج علی

    جَون ایلیا کے ایک مضمون سے اقتباس

    ’’سائنس (science) کے ذریعے انسانوں نے بہت کچھ کمایا ہے، انسانیت نے شاید کچھ بھی نہیں پایا ہے‘‘ (سیِّد جَون ایلیا نقوی) نامِ مضمون: دو لخت کتاب: فرنود
  5. فرحان محمد خان

    جون ایلیا غزل : کیا کہوں کیا ہے مرے کشکول میں - جون ایلیا

    غزل کیا کہوں کیا ہے مرے کشکول میں ترکِ دنیا ہے مرے کشکول میں قیس اور لیلیٰ ہیں محمل میں سوار اور صحرا ہے، مرے کشکول میں جون! اب میں کچھ نہیں ہوں لا سوا اب فقط لا ہے،مرے کشکول میں وہ جو ہے ہاں اور نہیں کے درمیاں بس وہی ’یا‘ ہےمرے کشکول میں اے مغاں! بھر دو اسے یعنی کہ اک ناف پیالہ ہے، مرے...
  6. فرحان محمد خان

    جون ایلیا غزل : تُو ہے جن کی جان اُنھیں کی، تجھ کو نہیں پہچان سجن - جون ایلیا

    غزل تُو ہے جن کی جان اُنھیں کی، تجھ کو نہیں پہچان سجن تجھ پر میری جان نچھاور، اے میرے انجان سجن دُھند ہے دیکھے سے اَن دیکھے تک، دیکھے اَن دیکھے کی اور اس دُھند میں ہے اب میرے، دھیان میں بس اک دھیان سجن میری ذات اب اک زنداں ہے، دل ہے اس کا زندانی تُو ہے میری ذات کے اس، زندانی کا ارمان سجن یہ...
  7. فرحان محمد خان

    جون ایلیا غزل :اب تو اک خواب ہوا اذنِ بیاں کا موسم - جون ایلیا

    غزل اب تو اک خواب ہوا اذنِ بیاں کا موسم جانے کب جائے گا، یہ شورِ اذاں کاموسم حاکمِ وقت ہوا، حاکمِ فطرت شاید ان دنوں شہر میں، نافذ ہے خزاں کا موسم حکمِ قاضی ہے کہ ماضی میں رکھا جائے ہمیں موسمِ رفتہ رہے عمر رواں کا موسم نمِ بادہ کا نہیں نام و نشاں اور یہاں ہے شرر بار فقیہوں کی زباں کا موسم...
  8. علی صہیب

    جون ایلیا وہ یقیں ہے نہ گماں ہے تننا ھُو یاھُو

    وہ یقیں ہے نہ گماں ہے تننا ھُو یا ھُو جانِ جانانِ جہاں ہے تننا ھُو یا ھُو کون آشوب گرِ دیر و حرم ہے آخر جو یہاں ہے نہ وہاں ہے تننا ھُو یا ھُو کس نے دیکھا ہے مکاں اور زماں کو یارا! نہ مکاں ہے نہ زماں ہے تننا ھُو یا ھُو میں جو اک فاسق و فاجر ہوں جو زندیقی ہوں رمزِ ’حق‘ مجھ میں نہاں ہے تننا ھُو...
  9. علی صہیب

    جون ایلیا آج لبِ گہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا (جونؔ ایلیا)

    (اس دو غزلہ کے تمام اشعار مجھے محفل میں نہیں ملے، سو پیش ہے منتخب کلامِ جون ایلیا بمع ویڈیو پیشکش!) آج لبِ گہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا تذکرۂ خجستۂ آب و ہوا نہیں کیا کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا جانے تری نہیں کے ساتھ کتنے ہی جبر تھے کہ...
  10. حسن محمود جماعتی

    حالت حال کے سبب، حالت حال ہی گئی :: آواز حسن جماعتی

    حالت حال کے سبب، حالت حال ہی گئی شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ عمر گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی
  11. فرحان محمد خان

    جون ایلیا کسی لباس کی خوشبو جب اڑ کے آتی ہے - جون ایلیا

    کسی لباس کی خوشبو جب اڑ کے آتی ہے ترے بدن کی جدائی بہت ستاتی ہے ہوا ہے جانتے جانانہ عمر بھر کو جدا یہ جاکنی ہے کہ رشتوں کی بے سباتی ہے ہم ایک ساحلِ دریائے خواب پر ہیں کھڑے پہ جو بھی موج ہے ہم پر سراب لاتی ہے ہے یہ صحنِ شامِ ملال اور آسماں خاموش نہ جانے کس کی تمنا کسے گنواتی ہے ہے یاد...
  12. م

    جون ایلیا کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو

    کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی لیکن جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو یہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیں کہ جو بھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو...
  13. م

    جون ایلیا بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی

    بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی سو میرے خواب بھی گئے سو میری نیند بھی گئی دل کا تھا ایک مدعا جس نے تباہ کر دیا دل میں تھی ایک ہی تو بات، وہ جو فقط سہی گئی جانے کیا تلاش تھی جون میرے وجود میں جس کو میں ڈھونڈتا گیا جو مجھے ڈھونڈتی گئی ایک خوشی کا حال ہے خوش سخن کے درمیاں عزت شائقین...
  14. فرحان محمد خان

    جون ایلیا سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں - جون ایلیا

    سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں نیند آنے لگی ہے فرقت میں ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر سوچتا ہوں تیری حمایت میں روح نے عشق کا فریب دیا جسم کا جسم کی عداوت میں اب فقط عادتوں کی ورزش ہے روح شامل نہیں شکایت میں عشق کو درمیاں نہ لاؤ کہ میں چیختا ہوں بدن کی عسرت میں یہ کچھ آسان تو نہیں ہے کہ ہم روٹھتے اب...
  15. فرحان محمد خان

    جون ایلیا حال یہ ہے کہ خواہشِ پُرسشِ حال بھی نہیں - جون ایلیا

    حال یہ ہے کہ خواہشِ پُرسشِ حال بھی نہیں اُس کو خیال بھی نہیں، اپنا خیال بھی نہیں اے شجرِ حیاتِ شوق، ایسی خزاں رسیدگی؟ پوششِ برگ و گُل تو کیا، جسم پہ چھال بھی نہیں مُجھ میں وہ شخص ہو چکا جس کا کوئی حساب تھا سُود ہی کیا، زیاں ہے کیا، اس کا سوال بھی نہیں مست ہیں اپنے حال میں دل زدگان و دلبراں...
  16. فرحان محمد خان

    جون ایلیا جانِ نگاہ و روحِ تمنّا چلی گئی - جون ایلیا

    جانِ نگاہ و روحِ تمنّا چلی گئی اے نجدِ آرزو! مری لیلیٰ چلی گئی رخصت ہوئی دیار سے اک نازشِ دیار صحرا سے اک غزالہِ صحرا چلی گئی برباد ہو گئی مری دنیا ئے جستجو دنیا ئے جستجو ، مری دنیا چلی گئی زہرہ میرا ستارہِ قسمت خراب ہے ناہید ! آج میری ثریا چلی گئی کس سے کہوں کہ ایک سراپا وفا مجھے...
  17. فرخ منظور

    جون ایلیا ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے ۔ جون ایلیا

    ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے ہر متاعِ نفس نذرِ آہنگ کی، ہم کو یاراں ہوس، تھی بہت رنگ کی گل زمیں سے ابلنے کو ہے اب لہو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے اوّلِ شب کا مہتاب بھی جا چکا صحنِ مے خانہ سے اب...
  18. فرحان محمد خان

    جون ایلیا اقوالِ جون ایلیا

    1:وہ باتیں کب تک ُسنے جاؤ گے جو آج تمہیں فقط پسند ہیں وہ باتیں کب کہنے دو گے جو کل تمہارے کام بھی آئیں گی 2: دنیا میں صرف دو عقیدے پائے جاتے ہیں انسانیت اور انسانیت دشمن اور صرف دو قومیں رہتی ہیں انسان اور انسان دشمن 3:انسانیت ایک خاندان ہے نہ اس میں کوئی امتیاز ہے اور نہ تفریق جو تفریق پیدا...
  19. فرحان محمد خان

    جون ایلیا انشائیہ : تلخ اور تند - جون ایلیا

    تلخ اور تندیہ اُکتائے ہوئے دلوں کے ترسائے ہوئے ولولوں کی زندگی ہے ، گلیاں اس حقیقت کو چھپاتی ہیں اور بازار بےتکان جھوٹ بولتے ہیں ، قد آور عمارتیں بینات کا آگا باندھے کھڑی ہیں یہ ایک ایسی شہرگاہ ہے جہاں بصیرتیں کُڑھتی ہیں اور بے دانشی ٹھٹھے لگاتی ہے یہاں محروم اور درماندہ لوگ خود اپنی محرومیوں...
  20. فرحان محمد خان

    جون ایلیا نظم :ہجوِ معشوقان خود - جون ایلیا

    ہجوِ معشوقان خود یہ جو معشوق ہیں مرے دو چار بدکنش ، بدکلام ، بد کردار کیسا بد صوت لفظ ہے معشوق ہے قوافی میں جس کے اک مغلوق یہ مرا جبر ہیں، ضرورت ہیں میں کہ نر ہوں یہ مادہ صورت ہیں خوب سے خوب تر؟ ارے توبہ جون اور جستجو کرے! توبہ جو خود آ جائے وہ لیلی ہے ہو، اگر اس کا رنگ میلا ہے نشے میں کاہلی کے...
Top