جون ایلیا غزل : کیا کہوں کیا ہے مرے کشکول میں - جون ایلیا

غزل
کیا کہوں کیا ہے مرے کشکول میں
ترکِ دنیا ہے مرے کشکول میں

قیس اور لیلیٰ ہیں محمل میں سوار
اور صحرا ہے، مرے کشکول میں

جون! اب میں کچھ نہیں ہوں لا سوا
اب فقط لا ہے،مرے کشکول میں

وہ جو ہے ہاں اور نہیں کے درمیاں
بس وہی ’یا‘ ہےمرے کشکول میں

اے مغاں! بھر دو اسے یعنی کہ اک
ناف پیالہ ہے، مرے کشکول میں

شش جہت کی دھوپ ہے میرا نصیب
اور سایہ ہے،مرے کشکول میں

بول اے یوسف! جو سودا ہو قبول
اِک زلیخا ہے مرے کشکول میں

اب صداکوئی مرے لب پر نہیں
پر وہ لب وا ہے، مرے کشکول میں

ساری دنیا کاگدا پیشہ ہوں میں
ساری دنیا ہے، مرے کشکول میں

ہوں میں اک سائل مگر تیرے لیے
ایک پڑیا ہے، مرے کشکول میں
جون ایلیا
 
Top