جون ایلیا انشائیہ : تلخ اور تند - جون ایلیا

تلخ اور تند
یہ اُکتائے ہوئے دلوں کے ترسائے ہوئے ولولوں کی زندگی ہے ، گلیاں اس حقیقت کو چھپاتی ہیں اور بازار بےتکان جھوٹ بولتے ہیں ، قد آور عمارتیں بینات کا آگا باندھے کھڑی ہیں یہ ایک ایسی شہرگاہ ہے جہاں بصیرتیں کُڑھتی ہیں اور بے دانشی ٹھٹھے لگاتی ہے یہاں محروم اور درماندہ لوگ خود اپنی محرومیوں اور درماندگیوں کے جواز میں تلخ اور تُند بحثیں کرتے ہیں اور اشتعال انگیز دلیلیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں لنگڑے بڑے سوچ بچار کے بعد اس نکتے کو پاسکے ہیں کہ ہمارے لنگڑے پن ہی میں راستوں کے نشیب و فراز کی فلاح ہے ، اور جن کی آنکھیں پھوڑ دی گئی وہ اس پر شکرگزار ہیں کے چلو چکا چوندھ سے نجات پائی ، اس مریض کو صد آفریں جو دوا سے بھرا ہوا قدح اپنے معالج ہی کے منہ پر دے مارے ۔

لفظوں نے یہاں کون سے رخنے بھرے ہیں اور سطروں نے بھلا کس تعمیر کی داغ بیل ڈالی ہے پر لکھنے والوں کا مقسوم ہی یہ ہے کہ وہ لکھیں اور اپنے لفظوں کی بے اثری کے گواہ قرار پائیں ، ویسے ان شہروں اور شہریوں کا مرتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ ان کے باب میں خامہ فرساؤں کا بے بضاعت گروہ کچھ لکھنے کی جسارت کرے ہر حال میں قلم کی سرنوشت صرف گھسنا ہے اور روشنائی کی نمود صرف ضائع جانا اور پھر ہم تو اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو لکھنے والوں میں سب سے حقیر اور پست ہے ہم تو لفظوں کے محض بازی گر ہیں پڑھنے والوں کی ایک تماشا پسند بھیڑ کو اپنے گرد اکٹھا کرنا ہمارا پیشہ اور خوش باش فرصتوں کو بہلانا ہمارا ہنر ہے ، لفظوں کا یہ استعمال صرف ہماری بے ضمیری ہی کا تحریری ثبوت نہیں بلکہ شاید اس معاشرے کا بھی ایک کرشمہ ہے جہاں چہروں کی چمک کے لیے ان پر تار کول ملا جاتا ہے ۔

ان لوگوں کا وہ خستہ حال ماضی اس پر مایہ حال سے شاید بہتر ہی تھا جب یہ فیصلہ کرنا کہ لکھنا کیا ہے لکھنے والوں سے تعلق رکھتا تھا اب یہ فیصلہ کرنا کہ کیا لکھنا ہے اور کیا نہیں لکھنا ہر اس عزیز سے متعلق ہے جو الف کو بہرحال "الف" اور بے کو ہر طور "ب" ہی سمجھتا ہے گزشتہ زمانہ لکھنے والوں کے ابہام کا زمانہ تھا اور یہ زمانہ پڑھنے والوں کے الہام کا زمانہ ہے لوگوں کا احتساب حکومتوں کے احتساب سے زیادہ درشت اور سخت گیر ہے اس احتساب کا ماحصل یہ ہے کہ خبر دار ہمارے حق میں زبان نہ کھولنا جو ہمیں گڑھے میں گرنے سے باز رکھے گا ہم اسے زمین میں گاڑ دیں گے کہنے کے لیے بہت سے نکتے ہیں اور لکھنے کے لیے بہت سے نسخے پر تم یقین کرو کہ یہ کہنے والے سننے والوں سے خوفزدہ لکھنے والے پڑھنے والوں سے ہراساں ہیں راست گوئی اور حق نگاری ہمارے لوگوں کو شاید کی کبھی خوش آئی ہو

وہ باتیں کب تک سنے جاؤ گے جو آج تمہیں فقط پسند ہیں وہ باتیں کب کہنے دو گے جو کل تمہارے کام بھی آئیں گی یقین جانو تمہارے حق میں سب سے مفید بات وہ ہے جس سے تمہاری سماعت میں زہر گھل جائے وقت کے اس پُر انبوہ اجتماع گاہ کو اس چیں بہ جبیں اور کف در دہن خطیب کی ضرورت ہے جو آکر یہ کہے کہ لوگو! جو باتیں تم خوش دلی اور شوق مندی کے ساتھ سنتے رہے وہ سب کی سب جرم و خباثت کی زبان سے کہی گئی ہیں ہوس ناکی اور شر طلبی کے کانوں سے سنی گئی ہیں اب تک صرف تعفن اُگلا گیا ہے صرف غلاظتیں نگلی گئی ہیں تمہاری نا میسر توجہ کی قسم تم خود نہیں جانتے کہ جو کچھ کہتے رہے ہو اس کا مطلب کیا تھا اور جو کچھ سنتے رہے ہو اس کا منشا کیا ہے؟ تمہارے خوش حافظہ معلموں اور تیز کلام اساتذہ نے تم سے اس قدر جھوٹ بولا ہے اگر تم جان لو تو یقیناََ تمہیں نطق و کلام سے نفرت ہو جائے کبھی وہ باتیں بھی سننا چاہو جو گراں گزریں کیا معلوم کہ راستی اسی لہجے کا رس ہو جو تمہیں کڑوا لگتا ہے ۔
عالمی ڈائجسٹ جولائی 1970
(یہی انشائیہ سسپنس اکتوبر 2006 میں بھی شائع ہوا)​
 
Top