غزل

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے::::shafiq khalish

    غزل چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے ! ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تُو سُنائی دے کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلُو میں کُچھ اِس طرح...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: دیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلا دِیا::: Shafiq Khalis

    غزل دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا! جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب! خط میرے نام لکھ کے جب...
  3. محمد تابش صدیقی

    امجد اسلام امجد غزل: وہ دَمکتی ہوئی لَو ،کہانی ہوئی، وہ چمکدار شعلہ، فسانہ ہُوا

    وہ دَمکتی ہوئی لَو ،کہانی ہوئی، وہ چمکدار شعلہ، فسانہ ہُوا وہ جو اُلجھا تھا وحشی ہَوا سے کبھی، اُس دِیے کو بُجھے تو زمانہ ہُوا باغ میں پُھول اُس روز جو بھی کِھلا، اُسکی زلفوں میں سجنے کو بے چین تھا جو ستارہ بھی اُس رات روشن ہُوا، اُسکی آنکھوں کی جانب روانہ ہُوا کہکشاں سے پَرے، آسماں سے پَرے،...
  4. محمد تابش صدیقی

    غزل: اسے تو پاسِ خلوصِ وفا ذرا بھی نہیں ٭ انور مسعود

    اسے تو پاسِ خلوصِ وفا ذرا بھی نہیں مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں گھرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب سے کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں مآلِ غنچہ و گل ہے مری نگاہوں میں مجھے تبسم‌ِ کاذب کا حوصلہ بھی نہیں طلوعِ صبحِ ازل سے میں ڈھونڈتا تھا جسے ملا تو ہے پہ مری سمت دیکھتا بھی نہیں مری...
  5. محمد تابش صدیقی

    غزل: کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا ٭ انور مسعود

    کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا دھوپ میں پھرنا، گھنے پیڑوں کا سایا دیکھنا ساتھ اس کے کوئی منظر، کوئی پس منظر نہ ہو اِس طرح میں چاہتا ہوں اُس کو تنہا دیکھنا رات اپنے دیدۂ گریاں کا نظارہ کیا کس سے پوچھیں، خواب میں کیسا ہے دریا دیکھنا اس گھڑی کچھ سوجھنے دے گی نہ یہ پاگل ہوا اک ذرا آندھی...
  6. محمد تابش صدیقی

    غزل: سوچنا، روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا ٭ انور مسعود

    سوچنا، روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا یہ بھی کیا سانس کو تلوار بنائے رکھنا راہ میں بھیڑ بھی پڑتی ہے، ابھی سے سن لو ہاتھ سے ہاتھ ملا ہے تو ملائے رکھنا کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا کوئی تخلیق بھی تکمیل نہ پائے میری نظم لکھ لوں تو مجھے نام نہ آئے رکھنا اپنی...
  7. محمد تابش صدیقی

    غزل: میں جرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا ٭ انور مسعود

    میں جرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا ظالم اسے کہیے جو دہائی نہیں دیتا کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ میں ورنہ تمہیں اذنِ رہائی نہیں دیتا چرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر اور دستِ ستمگر بھی دکھائی نہیں دیا آنکھیں بھی ہیں، رستا بھی، چراغوں کی ضیا بھی سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا اب...
  8. محمداحمد

    غزل ۔۔۔ موسموں کا مزاج اچھا ہے ۔۔۔ محمد احمدؔ

    غزل موسموں کا مزاج اچھا ہے کل سے بہتر ہے آج، اچھا ہے فرد بہتر، معاشرہ بہتر آپ اچھے، سماج اچھا ہے روٹھ کر بھی وہ مسکراتے ہیں یہ چلن، یہ رواج اچھا ہے رستگاری غموں سے ہوتی ہے بیٹھے سے کام کاج اچھا ہے وہ تفنن جو دل پہ بار نہ ہو اے مرے خوش مزاج !اچھا ہے احمدؔ اچھی ہے تیری گمنامی تیرے سر پر یہ...
  9. محمد تابش صدیقی

    غزل: کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی ٭ منور رانا

    کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید...
  10. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: خوئے اظہار نہیں بدلیں گے

    خوئے اظہار نہیں بدلیں گے ہم تو کردار نہیں بدلیں گے غم نہیں بدلیں گے یارو، جب تک غم کے معیار نہیں بدلیں گے لوگ آئینے بدلتے ہیں، مگر اپنے اطوار نہیں بدلیں گے تم نہ بدلو گے، تو زندانوں کے در و دیوار نہیں بدلیں گے قافلے راہ بدلنے پہ مصر اور سالار نہیں بدلیں گے چاہیں تو راہنما سستا لیں ہم تو...
  11. محمد تابش صدیقی

    غزل: سن کے گھبرا گئے تھے جو نامِ خزاں ٭ تابش

    سن کے گھبرا گئے تھے جو نامِ خزاں آ گئی راس ان کو بھی شامِ خزاں ہم بہاروں سے مایوس کیا ہو گئے دیس میں بڑھ گئے یونہی دامِ خزاں غم ضروری ہے قدرِ خوشی کے لیے ہے یہی غمزدوں کو پیامِ خزاں دن بہاروں کے آ کر چلے بھی گئے ہم تو کرتے رہے اہتمامِ خزاں گر کلامِ بہاراں ہے گل کی مہک تو ہے پتوں کی آہٹ کلامِ...
  12. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: ہیں میرے قلب و نظر، لعل اور گہر میرے

    ہیں میرے قلب و نظر، لعل اور گہر میرے سمیٹ لیں مرے ریزوں کو شیشہ گر میرے وه بول ہوں کہ کہیں نغمہ ہوں، کہیں فریاد وہ لفظ ہوں کہ معانی، ہیں منتشر میرے مرے نصیب میں بنجر زمیں کی رکھوالی کنویں اداس مرے، کھیت بے ثمر میرے خزاں میں ولولۂ پر کشائی کس نے دیا بہار آئی تو باندھے ہیں کس نے پر میرے وہ...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش :::کرب چہرے کا چھپاتے کیسے::::Shafiq-Khalish

    غزل کرب چہرے کا چھپاتے کیسے پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے مسکراہٹ سی سجاتے کیسے بعد مُدّت کی خبرگیری پر اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے دوستی میں رہے برباد نہ کم دشمنی کرتے نبھاتے کیسے خوش ہیں، وابستہ ہے اِک یاد سے زیست وہ نہ مِلتے، تو بِتاتے کیسے ظاہر اُن پر ہُوئیں...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: دل مبتلا ہے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے::: Shafiq Khalish

    دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: دل مبتلا ہے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے::: Shafiq Khalish

    دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
  16. عاطف ملک

    اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا

    اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا لبوں پہ صرف تری آرزو ہی لاؤں گا خدا کی وسعتِ رحمت سے لو لگاؤں گا میں پھر سے بابِ اجابت کو کھٹکھٹاؤں گا ہو جس میں میرے مقابل وہ دشمنِ ایماں میں جان بوجھ کے وہ جنگ ہار جاؤں گا بلاجواز وہ پھر ہو گیا خفا مجھ سے کہ جانتا ہے وہ، میں ہی اسے مناؤں گا اسی کے نام سے...
  17. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: کسے معلوم تھا، اس شے کی بھی تجھ میں کمی ہو گی

    کسے معلوم تھا، اس شے کی بھی تجھ میں کمی ہو گی گماں تھا، تیرے طرزِ جبر میں شائستگی ہو گی مجھے تسلیم ہے، تو نے محبت مجھ سے کی ہو گی مگر حالات نے اظہار کی مہلت نہ دی ہو گی میں اپنے آپ کو سلگا رہا ہوں اس توقع پر کبھی تو آگ بھڑکے گی، کبھی تو روشنی ہو گی شفق کا رنگ کتنے والہانہ پن سے بکھرا ہے زمیں...
  18. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: درگزر کرنے کی عادت سیکھو

    درگزر کرنے کی عادت سیکھو اے فرشتو! بشریت سیکھو ربِّ واحد کے پجاری ہو اگر تم جو کثرت میں ہو، وحدت سیکھو دشت، جو ابر کے محتاج نہیں ان سے پیرایۂ غیرت سیکھو ریزه ریزه ہی اگر رہنا ہے اپنے صحراؤں سے وسعت سیکھو صرف حیرت ہی نہیں آئنوں میں ان سے اظہارِ حقیقت سیکھو صرف رنگت ہی نہیں پھولوں میں ان سے...
  19. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: کتنے سر تھے جو پروئے گئے تلواروں میں

    کتنے سر تھے جو پروئے گئے تلواروں میں گنتیاں دب گئیں تاریخ کے طوماروں میں شہر ہیں یہ، کہ تمدن کے عقوبت خانے عمر بھر لوگ چنے رہتے ہیں دیواروں میں دن کو دیکھا غمِ مزدور میں گریاں ان کو شب کو جو لوگ سجے بیٹھے تھے درباروں میں آپ دستار اتاریں تو کوئی فیصلہ ہو لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میں...
  20. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: اشک تھا، چشمِ تر کے کام آیا

    اشک تھا، چشمِ تر کے کام آیا میں بشر تھا، بشر کے کام آیا میری قسمت میں شب تھی لیکن میں شمع بن کر سحر کے کام آیا روح میری، شجر کی چھاؤں بنی جسم، گرد و سفر کے کام آیا ق جبر کو بھی زوال ہے، جیسے آہن، آئینہ گر کے کام آیا عجز کو بھی عروج ہے، جیسے ایک قطره، گہر کے کام آیا ۔ زندگی، اہلِ شر کے گھر کی...
Top