مٹ چکا ہے سب یہاں اور سب یہاں مٹ جائے گا:: میر احمد نوید

منہاج علی

محفلین
مٹ چکا ہے سب یہاں اور سب یہاں مٹ جائے گا
مٹ رہا ہے سب یہاں ہائے یہاں میں بھی تو ہُوں

سب کی بے سمتی ہے میرا قہقہہ ہے اور سفر
بھول بیٹھا ہوں مَیں یہ شاید رواں میں بھی تو ہوں

بنتے مٹتے رکتے چلتے دیکھتا تھا میں حباب
یک بہ یک مجھ کو خیال آیا کہ ہاں میں بھی تو ہوں

لگ گئی ہے چُپ مجھے بھی رازداں کے ساتھ ساتھ
اُس کے لب کی خامشی کا رازداں میں بھی تو ہوں

میر احمد نوید
 
Top