غزل: جو بچھڑ کے جینا روا ہوا، یہ برا ہوا ٭ آصف اکبر

جو بچھڑ کے جینا روا ہوا، یہ برا ہوا
نہ جنوں کا قرض ادا ہوا، یہ برا ہوا

شبِ ہجر کھا گئی زیست کو چلو ٹھیک ہے
جو شکستِ عہدِ وفا ہوا، یہ برا ہوا

مجھے ہمسفر کی شقاوتوں کا گلہ نہیں
مرا خون میرا خدا ہوا، یہ برا ہوا

ترا حق تھا راہ بدلنا، تو نے بجا کیا
مرا اعتبار فنا ہوا، یہ برا ہوا

مرا ایک عمر کا مان کیسا بکھر گیا
نہ قبول حرفِ دعا ہوا، یہ برا ہوا

مرے خواب خاک میں مل گئے، چلو مل گئے
مرا یار مجھ سے خفا ہوا، یہ برا ہوا

ترے دکھ میں آصفِؔ خوش بیان جو چپ ہوا
تو کسی کو غم نہ ذرا ہوا، یہ برا ہوا

٭٭٭
آصف اکبر جیلانی
02 جنوری 2021ء
 
Top