کاشفی

محفلین
غزل
(فرزانہ اعجاز)
مرقّع ء رنج و الم زندگی ہے
مری زندگی ، اب یہی زندگی ہے

خوشی میں بھی دل ساتھ دیتا نہیں اب
ہنسی میں ملی آنسو وءں کی نمی ہے

نہ پوچھا کبھی تم نے احوال میرا
مجھے زعم تھا کہ بڑی دوستی ہے

گئ رات جیسے اندھیری گلی تھی
سویرے کا مطلب نئ روشنی ہے

ثبوت وفا مانگتے ہیں ہم ہی سے
محبت پہ کیسی گھڑی آپڑی ہے

یہ میری وفائیں ، میراپاک دامن
یہ میرا اثاثہ بہت قیمتی ہے

مری بندگی کا عجب ہے فسانہ
کبھی سجدہ ریزی ، کبھی گمرہی ہے

خدا کی عطا ہے یہ 'فرزانہ 'تجھ پر
تری ہر خطا معاف ہوتی رہی ہے
 
Top