وہ دَمکتی ہوئی لَو ،کہانی ہوئی، وہ چمکدار شعلہ، فسانہ ہُوا
وہ جو اُلجھا تھا وحشی ہَوا سے کبھی، اُس دِیے کو بُجھے تو زمانہ ہُوا
باغ میں پُھول اُس روز جو بھی کِھلا، اُسکی زلفوں میں سجنے کو بے چین تھا
جو ستارہ بھی اُس رات روشن ہُوا، اُسکی آنکھوں کی جانب روانہ ہُوا
کہکشاں سے پَرے، آسماں سے پَرے،...
اسے تو پاسِ خلوصِ وفا ذرا بھی نہیں
مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں
گھرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب سے
کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں
مآلِ غنچہ و گل ہے مری نگاہوں میں
مجھے تبسمِ کاذب کا حوصلہ بھی نہیں
طلوعِ صبحِ ازل سے میں ڈھونڈتا تھا جسے
ملا تو ہے پہ مری سمت دیکھتا بھی نہیں
مری...
کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا
دھوپ میں پھرنا، گھنے پیڑوں کا سایا دیکھنا
ساتھ اس کے کوئی منظر، کوئی پس منظر نہ ہو
اِس طرح میں چاہتا ہوں اُس کو تنہا دیکھنا
رات اپنے دیدۂ گریاں کا نظارہ کیا
کس سے پوچھیں، خواب میں کیسا ہے دریا دیکھنا
اس گھڑی کچھ سوجھنے دے گی نہ یہ پاگل ہوا
اک ذرا آندھی...
سوچنا، روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا
یہ بھی کیا سانس کو تلوار بنائے رکھنا
راہ میں بھیڑ بھی پڑتی ہے، ابھی سے سن لو
ہاتھ سے ہاتھ ملا ہے تو ملائے رکھنا
کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا
کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا
کوئی تخلیق بھی تکمیل نہ پائے میری
نظم لکھ لوں تو مجھے نام نہ آئے رکھنا
اپنی...
میں جرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اسے کہیے جو دہائی نہیں دیتا
کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمہیں اذنِ رہائی نہیں دیتا
چرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر
اور دستِ ستمگر بھی دکھائی نہیں دیا
آنکھیں بھی ہیں، رستا بھی، چراغوں کی ضیا بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا
اب...
غزل
موسموں کا مزاج اچھا ہے
کل سے بہتر ہے آج، اچھا ہے
فرد بہتر، معاشرہ بہتر
آپ اچھے، سماج اچھا ہے
روٹھ کر بھی وہ مسکراتے ہیں
یہ چلن، یہ رواج اچھا ہے
رستگاری غموں سے ہوتی ہے
بیٹھے سے کام کاج اچھا ہے
وہ تفنن جو دل پہ بار نہ ہو
اے مرے خوش مزاج !اچھا ہے
احمدؔ اچھی ہے تیری گمنامی
تیرے سر پر یہ...
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی
ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا
بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی
کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید...
خوئے اظہار نہیں بدلیں گے
ہم تو کردار نہیں بدلیں گے
غم نہیں بدلیں گے یارو، جب تک
غم کے معیار نہیں بدلیں گے
لوگ آئینے بدلتے ہیں، مگر
اپنے اطوار نہیں بدلیں گے
تم نہ بدلو گے، تو زندانوں کے
در و دیوار نہیں بدلیں گے
قافلے راہ بدلنے پہ مصر
اور سالار نہیں بدلیں گے
چاہیں تو راہنما سستا لیں
ہم تو...
سن کے گھبرا گئے تھے جو نامِ خزاں
آ گئی راس ان کو بھی شامِ خزاں
ہم بہاروں سے مایوس کیا ہو گئے
دیس میں بڑھ گئے یونہی دامِ خزاں
غم ضروری ہے قدرِ خوشی کے لیے
ہے یہی غمزدوں کو پیامِ خزاں
دن بہاروں کے آ کر چلے بھی گئے
ہم تو کرتے رہے اہتمامِ خزاں
گر کلامِ بہاراں ہے گل کی مہک
تو ہے پتوں کی آہٹ کلامِ...
ہیں میرے قلب و نظر، لعل اور گہر میرے
سمیٹ لیں مرے ریزوں کو شیشہ گر میرے
وه بول ہوں کہ کہیں نغمہ ہوں، کہیں فریاد
وہ لفظ ہوں کہ معانی، ہیں منتشر میرے
مرے نصیب میں بنجر زمیں کی رکھوالی
کنویں اداس مرے، کھیت بے ثمر میرے
خزاں میں ولولۂ پر کشائی کس نے دیا
بہار آئی تو باندھے ہیں کس نے پر میرے
وہ...
غزل
کرب چہرے کا چھپاتے کیسے
پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے
ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے
مسکراہٹ سی سجاتے کیسے
بعد مُدّت کی خبرگیری پر
اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے
دوستی میں رہے برباد نہ کم
دشمنی کرتے نبھاتے کیسے
خوش ہیں، وابستہ ہے اِک یاد سے زیست
وہ نہ مِلتے، تو بِتاتے کیسے
ظاہر اُن پر ہُوئیں...
دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے
فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے
کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول
ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے
بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور
لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے
منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر
ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے
فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے
کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول
ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے
بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور
لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے
منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر
ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا
لبوں پہ صرف تری آرزو ہی لاؤں گا
خدا کی وسعتِ رحمت سے لو لگاؤں گا
میں پھر سے بابِ اجابت کو کھٹکھٹاؤں گا
ہو جس میں میرے مقابل وہ دشمنِ ایماں
میں جان بوجھ کے وہ جنگ ہار جاؤں گا
بلاجواز وہ پھر ہو گیا خفا مجھ سے
کہ جانتا ہے وہ، میں ہی اسے مناؤں گا
اسی کے نام سے...
کسے معلوم تھا، اس شے کی بھی تجھ میں کمی ہو گی
گماں تھا، تیرے طرزِ جبر میں شائستگی ہو گی
مجھے تسلیم ہے، تو نے محبت مجھ سے کی ہو گی
مگر حالات نے اظہار کی مہلت نہ دی ہو گی
میں اپنے آپ کو سلگا رہا ہوں اس توقع پر
کبھی تو آگ بھڑکے گی، کبھی تو روشنی ہو گی
شفق کا رنگ کتنے والہانہ پن سے بکھرا ہے
زمیں...
درگزر کرنے کی عادت سیکھو
اے فرشتو! بشریت سیکھو
ربِّ واحد کے پجاری ہو اگر
تم جو کثرت میں ہو، وحدت سیکھو
دشت، جو ابر کے محتاج نہیں
ان سے پیرایۂ غیرت سیکھو
ریزه ریزه ہی اگر رہنا ہے
اپنے صحراؤں سے وسعت سیکھو
صرف حیرت ہی نہیں آئنوں میں
ان سے اظہارِ حقیقت سیکھو
صرف رنگت ہی نہیں پھولوں میں
ان سے...
کتنے سر تھے جو پروئے گئے تلواروں میں
گنتیاں دب گئیں تاریخ کے طوماروں میں
شہر ہیں یہ، کہ تمدن کے عقوبت خانے
عمر بھر لوگ چنے رہتے ہیں دیواروں میں
دن کو دیکھا غمِ مزدور میں گریاں ان کو
شب کو جو لوگ سجے بیٹھے تھے درباروں میں
آپ دستار اتاریں تو کوئی فیصلہ ہو
لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میں...
اشک تھا، چشمِ تر کے کام آیا
میں بشر تھا، بشر کے کام آیا
میری قسمت میں شب تھی لیکن میں
شمع بن کر سحر کے کام آیا
روح میری، شجر کی چھاؤں بنی
جسم، گرد و سفر کے کام آیا
ق
جبر کو بھی زوال ہے، جیسے
آہن، آئینہ گر کے کام آیا
عجز کو بھی عروج ہے، جیسے
ایک قطره، گہر کے کام آیا
۔
زندگی، اہلِ شر کے گھر کی...
نہ ظلمتِ شب میں کچھ کمی ہے، نہ کوئی آثار ہیں سحر کے
مگر مسافر رواں دواں ہیں ہتھیلیوں پر چراغ دھر کے
حصارِ دیوار و در سے میں نے نکل کے دیکھا کہ اس جہاں میں
ستارے جب تک چمک رہے ہیں، چراغ روشن ہیں میرے گھر کے
میں دل کا جامِ شکستہ لاؤں کہ روح کی کرچیاں دکھاؤں
میں کس زباں میں تمھیں سناؤں، جو مجھ پر...
میں حقائق میں گرفتار ہوں، وہموں میں نہیں
کوئی نغمہ مری زنجیر کی کڑیوں میں نہیں
ٹخنوں ٹخنوں میں پتاور میں کھڑا سوچتا ہوں
جتنے پتّے ہیں یہاں، اُتنے درختوں میں نہیں
شہر والو! یہ گھروندے ہیں، یہ گلیاں ہیں، یہ کھیت
گاؤں والوں کی جو پوچھو تو وہ گاؤں میں نہیں
غیر محسوس بہاروں کا وہ دَور آیا ہے
رنگ...