محمد تابش صدیقی
منتظم
اشک تھا، چشمِ تر کے کام آیا
میں بشر تھا، بشر کے کام آیا
میری قسمت میں شب تھی لیکن میں
شمع بن کر سحر کے کام آیا
روح میری، شجر کی چھاؤں بنی
جسم، گرد و سفر کے کام آیا
ق
جبر کو بھی زوال ہے، جیسے
آہن، آئینہ گر کے کام آیا
عجز کو بھی عروج ہے، جیسے
ایک قطره، گہر کے کام آیا
۔
زندگی، اہلِ شر کے گھر کی کنیز
خیر کا کام، مر کے کام آیا
تاجِ زریں پہ کچھ نہیں موقوف
سنگِ طفلاں بھی سر کے کام آیا
سیم و زر آدمی کے چاکر تھے
آدمی سیم و زر کے کام آیا
فقر و فاقہ میں مر گیا شاعر
شعر، اہلِ نظر کے کام آیا
کاش سن لوں کہ میرا شہپرِ فن
کسی بے بال و پر کے کام آیا
٭
احمد ندیم قاسمی
میں بشر تھا، بشر کے کام آیا
میری قسمت میں شب تھی لیکن میں
شمع بن کر سحر کے کام آیا
روح میری، شجر کی چھاؤں بنی
جسم، گرد و سفر کے کام آیا
ق
جبر کو بھی زوال ہے، جیسے
آہن، آئینہ گر کے کام آیا
عجز کو بھی عروج ہے، جیسے
ایک قطره، گہر کے کام آیا
۔
زندگی، اہلِ شر کے گھر کی کنیز
خیر کا کام، مر کے کام آیا
تاجِ زریں پہ کچھ نہیں موقوف
سنگِ طفلاں بھی سر کے کام آیا
سیم و زر آدمی کے چاکر تھے
آدمی سیم و زر کے کام آیا
فقر و فاقہ میں مر گیا شاعر
شعر، اہلِ نظر کے کام آیا
کاش سن لوں کہ میرا شہپرِ فن
کسی بے بال و پر کے کام آیا
٭
احمد ندیم قاسمی