غزلِ
محشؔر بدایونی
شاعری حسبِ حال کرتے رہے
کون سا ہم کمال کرتے رہے
کھائے اوروں نے پھل درختوں کے
ہم تو بس دیکھ بھال کرتے رہے
سارا دِن دُکھ سمیٹتے گُذرا
شب کو ، ردِّ ملال کرتے رہے
آدمی کیوں ہے بے خیال اِتنا ؟
خود سے ہم یہ سوال کرتے رہے
اور کیا پاسِ زخم کرتے لوگ
کوششِ اندمال کرتے رہے...
آب و سراب
تو یہ چہرہ ہے وہی، دیکھ کے جس کو اکثر
سیر چشمی کا ہُوا کرتا تھا احساس مجھے
تو یہ باتیں ہیں وہی، راز کی گرہیں تھیں کبھی
تو یہ وہ ہے، جو سمجھتی تھی بہت پاس مجھے
تو یہ آنکھیں ہیں وہی، بوسۂ لب کے ہنگام
بند ہو جاتی تھیں مندر کے کواڑوں کی طرح
تو یہ باہیں، مِری دِیوارِ بدن کا تھیں حصار...
شوکتؔ ثریا
غزل
بَھری بزم میں مُسکرانے کی باتیں
زمانے سے کی ہیں زمانے کی باتیں
کسی پیکرِ حُسن کا ذکرِ شِیریں
کسی خواب کے جگمگانے کی باتیں
وہ بے تاب سی احتیاطِ تمنّا
وہ آنے سے پہلے ہی ،جانے کی باتیں
اُفق سے کہیں کوئی بجلی نہ ٹُوٹے !
مِرے لب پہ ہیں آشیانے کی باتیں
میسّر جو اخلاص کی خلوتیں ہوں...
جہانِ کُہنہ کے مفلوُج فلسفہ دانو !
نظامِ نَو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اِسی واسطے بنی تھیں کیا؟
کہ اِن پہ دیس کی جنتا سِسک سِسک کے مَرے
زمیں نے کیا اِسی کارَن اناج اُ گلا تھا
کہ نسلِ آدم و حوّا ، بِلک بِلک کے مَرے
مِلیں اِسی لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دُخترانِ وطن تار تار کو...
غزل
حمد ہے ، شُکر ہے، ثنا ہے غزل
عِشق کو حُسن کی عطا ہے غزل
خوش عقِیدہ ہے خوش نَوا ہے غزل
فکر و احساس کی ضِیا ہے غزل
نعت کے شعر خُوب لکھتی ہے
واقفِ حقِ مُصطفٰی ؐہے غزل
مدحِ مولا علیؑ کے بارے میں
غاؔلب و ؔمیر کی نَوا ہے غزل
کہیں حُبِّ علیؑ غزل کا مزاج
کہیں بغضِ مُعاویہ ہے غزل
ہے تغزّل بھی...
غزل
جو بَہاروں میں نِہاں رنگِ خزاں دیکھتے ہیں
دیدۂ دل سے، وہی سیرِ جہاں دیکھتے ہیں
ایک پردہ ہے غموں کا، جسے کہتے ہیں خوشی!
ہم تبسّم میں نہاں، اشکِ رواں دیکھتے ہیں
دیکھتے دیکھتے، کیا رنگ جہاں نے بدلے
دیدۂ اشک سے، نیرنگِ جہاں دیکھتے ہیں
رات ہی رات کی مہماں تھی بہارِ رنگیں
پھر وہی صبح، وہی...
غزل
ناکام ہیں اثر سے دُعائیں، دُعا سے ہم
مجبُور ہیں ،کہ لڑ نہیں سکتے خُدا سے ہم
ہوں گے نہ مُنحرف کبھی عہدِ وفا سے ہم
چاہیں گے حشر میں بھی، بُتوں کو خُدا سے ہم
چاہو گے تم نہ ہم کو، نہ چُھوٹو گے ہم سے تم !
مجبور تم جفا سے ہُوئے ہو، وفا سے ہم
آتا نہیں نظر کوئی، پہلوُ بچاؤ کا !
کیونکر بچائیں...
غزل
مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا
دِل کو اُس کا خیال چھوڑ گیا
تازہ دم جسم و جاں تھے فُرقت میں
وصل، اُس کا نِڈھال چھوڑ گیا
عہدِ ماضی جو تھا عجب پُرحال !
ایک وِیران حال چھوڑ گیا
ژالہ باری کے مرحَلوں کا سفر
قافلے، پائمال چھوڑ گیا
دِل کو اب یہ بھی یاد ہو، کہ نہ ہو !
کون تھا، کیا ملال چھوڑ گیا...
غزل
عُمر گھٹتی رہی خبر نہ ہُوئی
وقت کی بات وقت پر نہ ہُوئی
ہجر کی شب بھی کٹ ہی جائے گی
اتفاقاً اگر سحر نہ ہُوئی
جب سے آوارگی کو ترک کِیا
زندگی لُطف سے بسر نہ ہُوئی
اُس خطا میں خلوص کیا ہوگا
جو خطا ہو کے بھی، نڈر نہ ہُوئی
مِل گئی تھی دوائے مرگ، مگر !
خضر پر وہ بھی کارگر نہ ہُوئی
کِس...
غزلِ
دُکھ کی دو اِک برساتوں سے، کب یہ دِلِ پایاب بھرا
وہ تو کوئی دریا لے آیا ، دریا بھی سیلاب بھرا
سوچا تھا! غم کو غم کاٹے، زہر کا زہر بنے تریاق
اب دِل آبلہ آبلہ ہے، اور شیشۂ جاں زہراب بھرا
تم آ جاتے، تو اُس رُت کی عُمر بھی لمبی ہو جاتی
ابھی تھا دیواروں پر سبزہ، ابھی تو صحن گلاب بھرا
جانے...
غزل
حرم کی راہ کو، نُقصان بُت خانے سے کیا ہو گا
خیالاتِ بشر میں، اِنقلاب آنے سے کیا ہو گا
کسے سمجھا رہے ہیں آپ، سمجھانے سے کیا ہو گا
بجز صحرا نوَردی ، اور دِیوانے سے کیا ہو گا
ارے کافر ! سمجھ لے ، اِنقلاب آنے سے کیا ہو گا
بنا کعبہ سے بُت خانہ، تو بُت خانے سے کیا ہو گا
نمازی سُوئے مسجد جا...
غزل
عظمتِ فن کے پرستار ہیں ہم
یہ خطا ہے، تو خطا وار ہیں ہم
جہد کی دُھوپ ہے ایمان اپنا
منکرِ سایۂ دِیوار ہیں ہم
جانتے ہیں ترے غم کی قیمت
مانتے ہیں، کہ گنہگار ہیں ہم
اُس کو چاہا تھا کبھی خود کی طرح !
آج خود اپنے طلبگار ہیں ہم
اہلِ دُنیا سے شکایت نہ رہی
وہ بھی کہتے ہیں زیاں کار ہیں ہم...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
دَورِ آغازِ جفا ، دِل کا سہارا نکلا
حوصلہ کچھ نہ ہمارا، نہ تمھارا نکلا
تیرا نام آتے ہی، سکتے کا تھا عالم مجھ پر
جانے کس طرح، یہ مذکور دوبارا نکلا
ہےترے کشف و کرامات کی ، دُنیا قائل
تجھ سے اے دِل! نہ مگر کام ہمارا نکلا
عبرت انگیزہے کیا اُس کی جواں مرگی بھی ...
غزل
دِل کا مُعاملہ جو سُپرد نظر ہُوا
دُشوار سے یہ مرحلہ دُشوار تر ہُوا
اُبھرا ، ہر اِک خیال کی تہہ سے تِرا خیال
دھوکا تِری صدا کا، ہر آواز پر ہُوا
راہوں میں ایک ساتھ یہ کیوں جل اُٹھے چراغ
شاید ترا خیال مرا ہم سفر ہُوا
سمٹی تو اور پھیل گئی ، دِل میں موجِ درد
پھیلا! تو اور دامنِ غم...
غزل
عزیز حامد مدنی
ثباتِ غم ہے محبّت کی بے رُخی آخر
کسی کے کام تو آئی، یہ زندگی آخر
کوئی بتاؤ کہ، ہے بھی ، تو اس قدر کیوں ہے؟
ہوا کو میرے گریباں سے دشمنی آخر
تری قبا، تری چادر کا ذکر کس نے کیا
مگرفسانہ ہوئی، بات ان کہی آخر
ترے خیال نے سو رُخ دیے تصوّر کو
ہزار شیوہ تھی تیری سپردگی آخر...
غزل
بہادر شاہ ظفؔر
جانِ عالم ہو، کوئی کیونکر جُدا رکھّے تمھیں
زندگی ہے اے بُتو تم سے، خُدا رکھّے تمھیں
خود نُما ہو تم، کوئی پردے میں کیا رکھّے تمھیں
وہ رکھے درپردہ ، جو دِل میں چُھپا رکھے تمھیں
حضرتِ دِل! کیا کروں میں خُو ہے اُلٹی آپ کی !
تم اُسی سے رہتے ہو خوش، جو خفا رکھّے تمھیں
تم تو ہو...
غزل
خراشِ دل پہ جمائی تھی جو کمال کے ساتھ
وہ دُھول زخم کی صُورت ہٹی خیال کے ساتھ
تمام عمر کٹے کیوں نہ پھرملال کے ساتھ
جو فیصلے ہوں محبّت کےاشتعال کے ساتھ
مری حیات کو،جھونکے ہوئے بہار کے اب
وہ چند لمحے جو بیتے تھے خوش جمال کے ساتھ
سمجھ سکے نہ تعلق وہ، لاکھ سمجھایا
گو گفتگو رہی اُن...
غزلِ
ہر خواب کے مکاں کو مسمار کردِیا ہے
بہتر دِنوں کا آنا دشوار کردِیا ہے
وہ دشت ہو کہ بستی، سایہ سکوت کا ہے
جادُو اثر سُخن کو بیکار کردِیا ہے
گرد و نواحِ دِل میں خوف و ہراس اِتنا
پہلے کبھی نہیں تھا، اِس بار کردِیا ہے
کل اور ساتھ سب کے اُس پار ہم کھڑے تھے
اِک پَل میں ، ہم کو کِس نے اِس...
غزل
بیقراری سی بیقراری ہے
دِن بھی بھاری ہے، رات بھاری ہے
زندگی کی بِساط پر اکثر
جیتی بازی بھی ہم نے ہاری ہے
توڑو دِل میرا ، شوق سے توڑو !
چیز میری نہیں تمھاری ہے
بارِ ہستی اُٹھا سکا نہ کوئی
یہ غمِ دِل! جہاں سے بھاری ہے
آنکھ سے چھُپ کے دِل میں بیٹھے ہو
ہائے! کیسی یہ پردہ داری ہے...