شاذ تمکنت شاذ تمکنت ::::: آب و سراب ::::: Shaz Tamkanat

طارق شاہ

محفلین

آب و سراب

تو یہ چہرہ ہے وہی، دیکھ کے جس کو اکثر
سیر چشمی کا ہُوا کرتا تھا احساس مجھے

تو یہ باتیں ہیں وہی، راز کی گرہیں تھیں کبھی
تو یہ وہ ہے، جو سمجھتی تھی بہت پاس مجھے

تو یہ آنکھیں ہیں وہی، بوسۂ لب کے ہنگام
بند ہو جاتی تھیں مندر کے کواڑوں کی طرح

تو یہ باہیں، مِری دِیوارِ بدن کا تھیں حصار
رات بھر میں، جو پگھل جاتی تھیں شمعوں کی طرح

مُدّتوں بعد، نجانے اُسے کیا یاد آیا !
بے اِرادہ، وہ چلی آئی تھی یونہی سرِشام

وہی لہجہ تھا، مگر اگلی سی وہ کاٹ نہ تھی
وہی تہذیب تھی باقی، وہی شائِستہ سلام


چُٹکیوں میں لئے پَلّو کی لپیٹ
یُوں کہ، سُن گُن بھی نہ دےپیچ و خَمِ پائے خِرام

اب ہنسی کیا تھی، تبسّم کی خوش اخلاقی تھی
دِل بھی ٹُوٹے نہ مِرا، بات بھی رہ جائے مِری
اِس مُروّت میں بھی پُرکاری ابھی باقی تھی

وہ گرہستی کی سُناتی رہی رُوداد اپنی
وہی بچّوں کی شرارت، وہی گھر کے دِن رات

وہی آیا، وہی باورچی کا چونچال مزاج
وہی مہنگائی کا دُکھڑا، وہی پٹرول کی بات

وہی فلموں کی للک تھی، وہی اتوار کی آس
وہی دفتر کی شکایت، وہی شوہر کے صفات

اب مِرے پاس تو موضوعِ سُخن کچھ بھی نہ تھا
راہِ ظُلمات میں، آوارہ سِکندر جیسے

سوچتا تھا ،کہ میں کیا ہُوں، مجھے کیا ہونا تھا
دستِ بُت گر میں تغافُل زدہ پتّھر جیسے

وہ اچانک، اُٹھی، آداب کِیا، جانے لگی
پائے رقص آلودہ سے، اٹھلاتی تھی طاؤس کی چال

ایک کیفیتِ بے نام، تھی طاری مجھ پر
میرا یہ حال کہ آنسو، نہ تبسّم، نہ ملال

بے در و بام مکاں ہوگیا اب میرا وجُود
کوئی آئے، کوئی جائے، نہیں دستک کا سوال

شاؔذ تمکنت

 
Top