غزل
۔
ہو حشر صُبح لازم اگر شام کو نہیں
تھا رحم دِل میں لوگوں کے، اب نام کو نہیں
شُرفا کی سرزَنِش ہو تو، سب لوگ پیش پیش
پُو چھیں بُرے عمل پہ بھی بدنام کو نہیں
غافل ہُوئے ہیں سب ہی حقوق العباد سے
رُحجانِ قوم ،کیا زبُوں انجام کو نہیں؟
تحرِیر اُن پہ کیسے ہو بارآور آپ کی
دَیں اہمیت ذرا بھی...
غزل
چِھن گئی درد کی دولت کیسے
ہوگئی دِل کی یہ حالت کیسے
پُوچھ اُن سے جو بِچھڑ جاتے ہیں
ٹوُٹ پڑتی ہے قیامت کیسے
تیری خاطر ہی یہ آنکھیں پائیں
میں بُھلا دُوں تِری صُورت کیسے
اب رہا کیا ہے مِر ے دامن میں
اب اُسے میری ضرورت کیسے
کاش مجھ کو یہ بتا د ے کوئی !
لوگ کرتے ہیں محبّت کیسے
عدیم ہاشمی
غزل
داغ دہلوی
کوئی پھرے نہ قول سے، بس فیصلہ ہُوا
بَوسہ ہمارا آج سے، دِل آپ کا ہُوا
اِس دِل لگی میں حال جو دِل کا ہُوا، ہُوا
کیا پُوچھتے ہیں آپ تجاہل سے کیا ہُوا
ماتم، ہمارے مرنے کا اُن کی بَلا کرے
اِتنا ہی کہہ کے چُھوٹ گئے وہ، بُرا ہُوا
وہ چھٹتی دیکھتے ہیں ہَوائی جو چرخ پر
کہتے ہیں مجھ...
غزل
کُچھ اِس سے بڑھ کےہوگا بَھلا کیا حَسِیں عِلاج
کرتے ہیں غم کا غم سے مِرے دِلنشیں عِلاج
پُر رحم دِل کے درد کا ہوگا نہیں عِلاج
رو رو کے پک رہے جو، ہو اُس کا کہِیں عِلاج
کِس کِس کی موت کا وہاں رونا رہے ، جہاں !
بالا زمِیں کے غم کا ہو زیرِ زمِیں عِلاج
انسانیت کا خون اُنہی سے ہے اب ہُوا...
غزل
داغ دہلوی
جَو سر میں زُلف کا سودا تھا ، سب نِکال دِیا
بَلا ہُوں میں بھی، کہ آئی بَلا کو ٹال دِیا
یقیں ہے ٹھوکریں کھاکھا کے کُچھ سنْبھل جائے
کہ اُس کی راہ میں، ہم نے تو دِل کو ڈال دیا
جہاں میں آئے تھے کیا رنج ہی اُٹھانے کو ؟
الٰہی تُو نے ہمَیں کِس بَلا میں ڈال دِیا
خُدا کرِیم ہے...
غزلِ
مجاؔز لکھنوی
وہ نقاب آپ سے اُٹھ جائے تو کُچھ دُور نہیں
ورنہ میری نگہِ شوق بھی مجبُور نہیں
خاطرِ اہلِ نظر حُسن کو منظوُر نہیں
اِس میں کُچھ تیری خطا دیدۂ مہجوُر نہیں
لاکھ چُھپتے ہو، مگر چُھپ کے بھی مستوُر نہیں
تم عجب چیز ہو ، نزدیک نہیں، دُور نہیں
جراَتِ عرض پہ وہ کُچھ نہیں کہتے،...
غزل
حسرؔت موہانی
شوق مُشتاقِ لقا صبر سے بیگانہ ہُوا
جب سے مشہوُر تِرے حُسن کا افسانہ ہُوا
ایک ہی کام تو یہ عِشق سے مَردانہ ہُوا
کہ ، تِرے شیوۂ ترکانہ کا دِیوانہ ہُوا
وصلِ جاناں، نہ ہُوا جان دِیئے پر بھی نصیب!
یعنی اُس جنسِ گرامی کا یہ بیعانہ ہُوا
بزمِ ساقی میں ہُوئے سب یونہی سیرابِ...
غزل
کُھل گئے ہیں بہار کے رستے
ایک دِلکش دیار کے رستے
ہم بھی پہنچے کسی حقیقت تک
اِک مُسلسل خُمار کے رستے
منزلِ عِشق کی حدوں پر ہیں
دائمی اِنتظار کے رستے
اُس کے ہونے سے یہ سفر بھی ہے
سارے رستے ہیں یار کے رستے
جانے کِس شہر کو مُنؔیر گئے
اپنی بستی کے پار کے رستے
مُنؔیر نیازی
غزل
اےشبِ عید اب بتا ، دِیدار پائیں کِس طرح
اپنی نظروں میں سُہانا چاند لائیں کِس طرح
اِک ہجومِ شہر ہے نظریں اُٹھائے تاک میں
وہ سرِبام اب اگر آئیں تو آئیں کِس طرح
باوجود اِس کے، کہ سب وعدے نہ کم تھے عہد سے
عید کے مِلنے پہ دیکھو تو ستائیں کِس طرح
رشک ہے حیرانگی سے اپنی قسمت پر ، کہ لوگ...
غزل
کب کہاں ہوتا نہیں اِنساں ،جہاں میں عام و خاص
جو حقیقت میں نہیں، تو ہے گُماں میں عام و خاص
وہ بھی منظر دیکھنے کا تھا ، گلی اور دِید کا
خاک پر بیٹھے رہے اکثر جہاں، میں، عام و خاص
ایک مُدّت تک رہا یہ شور ، وہ آنے کو ہیں
ایک مدّت، منتظر تھے سب وہاں ، میں، عام و خاص
ڈر بَھلا کب ذہن میں خدشے...
غزل
پیارے پاگل سے واسطہ سا لگے
پیار جس کو یہ، حادثہ سا لگے
ضبط ِغم ہی کا یہ صِلہ سا لگے
مُنہ میں اشکوں کا ذائقہ سا لگے
بدشگونی کا سلسلہ سا لگے
کچھ بھی کہیے، اُنھیں گِلہ سا لگے
جب بھی ناراضگی کا غلبہ ہو
دو قدم اُن کو فاصلہ سا لگے
راز وہ خاک راز رکھیں گے!
ہرعمل جن کا ، ناطقہ سا لگے
اب...
غزل
مِری طلب، مِری رُسوائیوں کے بعد کُھلا
وہ کم سُخن، سُخن آرائیوں کے بعد کُھلا
وہ میرے ساتھ ہے، اور مُجھ سے ہمکلام بھی ہے
یہ ایک عمُر کی تنہائیوں کے بعد کُھلا
میں خود بھی تیرے اندھیروں پہ مُنکشف نہ ہُوا
تِرا وجُود بھی ، پرچھائیوں کے بعد کُھلا
عجب طلسمِ خموشی تھا گھر کا سنّاٹا!
جو بام و در...
عید کے دِن !
شاؔہد شاہنواز
دِل دھڑکتا ہے تو ہوتا ہے گُماں عید کے دِن
میرے دِل میں بھی اُمنگیں ہیں جواں عید کے دِن
خاک کی مِثل نہیں ہُوں، نہ کوئی پتّھر ہُوں
کُچھ نہ کُچھ میرا بھی ہے نام و نِشاں عید کے دِن
گھر سے ہُوں دُور، پریشان ہُوں، بدحال ہُوں میں !
کاش گھر میں ہو مُسرّت کا سماں عید...
غزل
حسرؔت موہانی
چُپ ہیں کیوں آپ، مِرے غم سے جو دِلگیر نہیں
اب نہ کہیے گا، تِری آہ میں تاثیر نہیں
کیا وہ یُوں ہم سے ہیں راضی، کہ نہیں ہیں راضی!
کیا یہ وہ خواب ہے، جس خواب کی تعبیر نہیں
وہ بھی چُپ، ہم بھی ہیں خاموش بہ ہنگامِ وصال
کثرتِ شوق بہ اندازۂ تقرِیر نہیں
شوق کو یادِ رُخِ یار نہ...
شکیب جلالی
غزل
کیا کہیے کہ اب اُس کی صدا تک نہیں آتی
اُونچی ہوں فصِیلیں، تو ہَوا تک نہیں آتی
شاید ہی کوئی آسکے اِس موڑ سے آگے !
اِس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
وہ گُل نہ رہے نِکہتِ گُل خاک مِلے گی !
یہ سوچ کے، گلشن میں صبا تک نہیں آتی
اِس شورِ تلاطُم میں کوئی کِس کو پُکارے ؟
کانوں میں یہاں،...
غزلِ
فراؔق گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
یہ نِکہتوں کی نرم رَوی، یہ ہَوا، یہ رات
یاد آ رہے ہیں عِشق کو ٹُوٹے تعلّقات
مایُوسِیوں کی گود میں دَم توڑتا ہے عِشق
اب بھی کوئی بنا لے تو بِگڑی نہیں ہے بات
اِک عُمر کٹ گئی ہے تِرے اِنتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ، کٹ نہ سکی جِن سے ایک رات
ہم اہلِ...
غزل
شفیق خلؔش
دُعا میں اب وہ اثر کا پتہ نہیں چلتا
کُچھ اِلتفاتِ نظر کا پتہ نہیں چلتا
اُتر کے خود سےسمندر میں دیکھنا ہوگا
کہ ساحلوں سے بھنور کا پتہ نہیں چلتا
خیالِ یار میں بیٹھے ہُوئے ہمَیں اکثر
گُزرتے شام و سَحر کا پتہ نہیں چلتا
نظر میں روزِ اوائل کا چاند ہو جیسے
نِگہ بغور کمر کا پتہ...
غزل
آگئی یاد، شام ڈھلتے ہی
بُجھ گیا دِل چراغ جلتے ہی
کُھل گئے شہرِِغم کے دروازے
اِک ذرا سی ہَوا کے چلتے ہی
کون تھا تُو، کہ پھر نہ دیکھا تُجھے
مِٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی
خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہِ شب تاب کے نِکلتے ہی
تُو بھی جیسے بدل سا جاتا ہے
عکسِ دِیوار کے بدلتے ہی
خُون سا لگ گیا ہے...
غزل
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا
یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا
روئے گی صُبح ہمَیں، شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا
وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں...
ناصؔرکاظمی
حُسن کہتا ہے اِک نظر دیکھو
دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو
سُن کے طاؤسِ رنگ کی جھنکار
ابر اُٹھّاہے جُھوم کر دیکھو
پُھول کو پُھول کا نِشاں جانو
چاند کو چاند سے اُدھر دیکھو
جلوۂ رنگ بھی ہے اِک آواز
شاخ سے پُھول توڑ کر دیکھو
جی جلاتی ہے اوس غُربت میں
پاؤں جلتے ہیں گھاس پر دیکھو...