طارق شاہ
محفلین
غزل
۔
ہو حشر صُبح لازم اگر شام کو نہیں
تھا رحم دِل میں لوگوں کے، اب نام کو نہیں
شُرفا کی سرزَنِش ہو تو، سب لوگ پیش پیش
پُو چھیں بُرے عمل پہ بھی بدنام کو نہیں
غافل ہُوئے ہیں سب ہی حقوق العباد سے
رُحجانِ قوم ،کیا زبُوں انجام کو نہیں؟
تحرِیر اُن پہ کیسے ہو بارآور آپ کی
دَیں اہمیت ذرا بھی جو پیغام کو نہیں
آکر ہم اپنے شہر میں نالاں ہیں یُوں خلؔش
لمحہ بھی رو زو شب میں اِک آرام کو نہیں
لِکھّے ہیں میں نے سارے ہی حالات کے تحت !
اِک شعر میں یہاں دخل اِلہام کو نہیں
شفیق خلؔش