داغ داغ دہلوی ::::: جَو سر میں زُلف کا سودا تھا سب نِکال دِیا::::: Daagh Dehlvi

طارق شاہ

محفلین

غزل
داغ دہلوی

جَو سر میں زُلف کا سودا تھا ، سب نِکال دِیا
بَلا ہُوں میں بھی، کہ آئی بَلا کو ٹال دِیا

یقیں ہے ٹھوکریں کھاکھا کے کُچھ سنْبھل جائے
کہ اُس کی راہ میں، ہم نے تو دِل کو ڈال دیا

جہاں میں آئے تھے کیا رنج ہی اُٹھانے کو ؟
الٰہی تُو نے ہمَیں کِس بَلا میں ڈال دِیا

خُدا کرِیم ہے یُوں تو، مگر ہے اِتنا رشک !
کہ میرے عِشق سے پہلے تجھے جمال دِیا

تمھِیں کہو، کہ کہاں تھی یہ وضع، یہ ترکِیب
ہمارے عِشق نے سانچے میں تم کو ڈھال دیا

بُتوں کے دِین میں ہے، لوُٹنا ثواب ایسا !
کہ جیسے راہِ خُدا مُفلِسوں کو مال دِیا

پیامِ وصل ہی کیوں اب رقیب کے ہاتھوں
نِکالنا تھا مجھے آپ نے، نِکال دِیا

بتائیں لفظِ تمنّا کے تم کو معنی کیا
تمھارے کان میں اِک حرف ہم نے ڈال دِیا

سَرِ عدالتِ محشر جواب کیا دو گے ؟
جو داد خواہوں نے تم پر کوئی سوال دِیا

نہیں عدو تو، خیالِ عدو ہی خلوت میں !
کِسی بہانے سے اُس کو نہ تم نے ٹال دِیا

ہَمَیں خُدا نے بہت رنج و غم دِیا، اے داغ !
بُتوں کی دِل میں نہ تھوڑا سا رحم ڈال دیا

داغ دہلوی
 
Top