طارق شاہ
محفلین
غزل
کب کہاں ہوتا نہیں اِنساں ،جہاں میں عام و خاص
جو حقیقت میں نہیں، تو ہے گُماں میں عام و خاص
وہ بھی منظر دیکھنے کا تھا ، گلی اور دِید کا
خاک پر بیٹھے رہے اکثر جہاں، میں، عام و خاص
ایک مُدّت تک رہا یہ شور ، وہ آنے کو ہیں
ایک مدّت، منتظر تھے سب وہاں ، میں، عام و خاص
ڈر بَھلا کب ذہن میں خدشے مِرے لاتے نہ تھے
دیکھ لیتا تھا گلی میں، جب جَواں میں عام و خاص
کیا غضب محفِل سجی تھی رہگُزارِعِشق میں!
حُسن کے، قصّے میں تھے شامل جہاں،میں، عام و خاص
ہے سُخن گوئی کی قُدرت وہ عطا ، رب سے مجھے
زیر کرتا ہُوں سبھی، اب پہلواں،میں عام و خاص
سب برابر ہیں مجھے، قطعِ نظر اِک عُمر کے!
کب کسی میں دیکھتا ہُوں، اب یہاں میں عام و خاص
پیش کرتے ہیں سخنور بارگاہِ حُسن میں
کب نہیں تعریف کچھ، اپنی زباں میں عام و خاص
یہ توسُّط سے گُلوں کی خواب دیکھا ہے، کہ اب
سب برابر خوش حَسِیں ہیں، گُلسِتاں میں عام و خاص
کیا وہاں ، ہو کیفیت ، اپنی جُداگانہ خلؔش !
ایک سے ٹھہریں نظر کو، جس سماں میں عام و خاص
مُنفرِد اِک حیثیت، مجھ کو وَدِیعَت ہے خلؔش !
بس نہیں عادت سے کوئی ، میں جہاں میں عام وخاص
شفیق خلش