طارق شاہ
محفلین
غزل
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا
یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا
روئے گی صُبح ہمَیں، شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا
وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں سنبھالے ہُوئے رکھّے وہ جو ہم سا ہوگا
ہم سمجھ لیتے ہیں داغوں کے سُلگنے پہ خلؔش
درد جب حد سے گُزر جائے تو کم سا ہوگا
شفیق خلؔش