طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلؔش
دُعا میں اب وہ اثر کا پتہ نہیں چلتا
کُچھ اِلتفاتِ نظر کا پتہ نہیں چلتا
اُتر کے خود سےسمندر میں دیکھنا ہوگا
کہ ساحلوں سے بھنور کا پتہ نہیں چلتا
خیالِ یار میں بیٹھے ہُوئے ہمَیں اکثر
گُزرتے شام و سَحر کا پتہ نہیں چلتا
نظر میں روزِ اوائل کا چاند ہو جیسے
نِگہ بغور کمر کا پتہ نہیں چلتا
مُعیّن اُن کی محبّت کی رہگُزر سے مِری
کبھی جُدا تھی ڈگر، کا پتہ نہیں چلتا
ہُنر خُدا نے عطا یُوں کیا ہے لکھنے کا
لکھے پہ نظم و نثر کا پتہ نہیں چلتا
ہم اُن کی چاہ میں آ پہنچے اُس مقام پہ اب !
جہاں سے راہِ دِگر کا پتہ نہیں چلتا
مُنافقوں سے نہ کم تر ملے ہیں دوست مجھے
کسی عمل میں بھی، شر کا پتہ نہیں چلتا
رہے نہ ظُلم کو سہہ سہہ کے لوگ کم عادی
اب اُن میں خوف و خطر کا پتہ نہیں چلتا
نجانے پیار ، کہ کِینہ لئے ہے سینے میں
بَیک نظر تو بشر کا پتہ نہیں چلتا
کریں ہیں دِل سے محبّت کی آبیاری ہم
نصیب میں ہے ثمر کا پتہ نہیں چلتا
اب اُن کے طرز و عمل سے ہَمَیں ذرا بھی خلؔش
رہے تھے شِیر و شکر کا پتہ نہیں چلتا
شفیق خلؔش