شفیق خلش :::::: پیارے پاگل سے واسطہ سا لگے :::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزل
پیارے پاگل سے واسطہ سا لگے
پیار جس کو یہ، حادثہ سا لگے

ضبط ِغم ہی کا یہ صِلہ سا لگے
مُنہ میں اشکوں کا ذائقہ سا لگے

بدشگونی کا سلسلہ سا لگے
کچھ بھی کہیے، اُنھیں گِلہ سا لگے

جب بھی ناراضگی کا غلبہ ہو
دو قدم اُن کو فاصلہ سا لگے

راز وہ خاک راز رکھیں گے!
ہرعمل جن کا ، ناطقہ سا لگے

اب شناسائی بھی، رہی وہ کہاں
ساتھ بیٹھے پہ فاصلہ سا لگے

یُوں اُداسی کا دَور دَورہ ہے
دِل میں باقی نہ حوصلہ سا لگے

اب توتنہائی کے اِس عادی کو
ساتھ اِک کا بھی، قافلہ سا لگے

اپنا سایا ہو ہمقدم تو مجھے
تیرے ہونے کا شائبہ سا لگے

سب ڈھلے وہ حقیقتوں میں قیاس !
پہلے پہلے جو واہمہ سا لگے

سہل کیا اُن سے گفتگو تھی خلِؔش
اب تو مُشکِل ہے رابطہ سا لگے

شفیق خلؔش
 
Top