غزلِ
شہرِجنُوں میں کل تلک جو بھی تھا سب بدل گیا
مرنے کی خُو نہیں رہی جینے کا ڈھب بدل گیا
پَل میں ہَوا مِٹا گئی ، سارے نقوش نُور کے
دیکھا ذرا سی دیر میں، منظرِ شب بدل گیا
میری پُرانی عرض پر غور کیا نہ جائے گا
یُوں ہے، کہ اُس کی بزم میں طرزِ طلب بدل گیا
ساعتِ خُوب وصل کی، آنی تھی آنہیں...
غزل
مرزا اسداللہ خاں غا لؔب
بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غلامِ ساقیِ کوثر ہُوں، مجھ کو غم کیا ہے!
تمھاری طرز و رَوِش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لُطف، تو سِتم کیا ہے؟
کٹے، تو شب کہَیں؛ کاٹے، تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ، وہ زُلفِ خم بخم کیا ہے؟
لِکھا کرے کوئی، احکامِ طالعِ...
غزل
مرزا اسداللہ خاں غالبؔ
مُدّت ہُوئی ہے یار کو مہماں کئے ہُوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہُوئے
کرتا ہُوں جمع پھر ، جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہُوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہُوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم
برسوں ہُوئے ہیں چاک گریباں کئے ہُوئے
پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفَس
مُدّت ہُوئی ہے...
غزل
شفیق خلش
اُن کی طرف سے جب سے پیغام سے گئے
اپنے اِرادے سارے انجام سے گئے
اُلفت میں خوش رُخوں کی، خوش نام سے گئے
ہم جس جگہ گئے ہیں ، بدنام سے گئے
اظہارِ آرزو سے کُچھ کم غضب ہُوا
مِلنا مِلانا دُور اِک پیغام سے گئے
مِلتی ہے زندگی کو راحت خیال سے
حاصل وہ دِید کی ہم اِنعام سے گئے
جب سے...
غزلِ
نواب مُصطفٰی خاں شیفتہ
رات واں گُل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
صُبح بُلبُل کی روِش ہمدَمِ افغاں دیکھا
کوئی بے جان جہاں میں نہیں جیتا ،لیکن
تیرے مہجوُر کو جیتے ہُوئے بے جاں دیکھا
میں نے کیا جانیے کِس ذوق سے دی جاں دَمِ قتل
کہ بہت اُس سے سِتم گر کو پشیماں دیکھا
نہ ہُوا یہ کہ ، کبھی اپنے...
غزل
اب یہ مُمکن نہیں نِکلیں گے کبھی دام سے ہم
سب کہَیں عِشق کے ہونے پہ گئے کام سے ہم
کون کہتا ہے، ہیں بے کل غم و آلام سے ہم
جو تصوّر ہے تمھارا، تو ہیں آرام سے ہم
اب نہ یہ فکر کہ ہیں کون، کہاں پر ہم ہیں !
جانے جاتے ہیں اگر اب، تو دِئے نام سے ہم
یُوں نہ تجدیدِ تعلّق کا اب اِمکان رہا ...
غزل
زمیں کے حلقے سے نکلا ، تو چاند پچھتایا
کشش بچھانے لگا ہے ہر اگلا سیّارہ
میں پانیوں کی مُسافر ، وہ آسمانوں کا
کہاں سے ربط بڑھائیں ،کہ درمیاں ہے خلا
بچھڑتے وقت دِلوں کو اگرچہ دُکھ تو ہُوا
کُھلی فضا میں مگر سانس لینا اچھا ہو گا
جو صرف رُوح تھا ، فُرقت میں بھی وصال میں بھی
اُسے بدن کے اثر...
غزلِ
ریحان منصُور آنولی
اور کِس کے مُنہ سجے گی داستانِ زندگی
لُطف جب ہے، وہ زباں ہو اور بیانِ زندگی
رنگ دِکھلاتا ہے کیا کیا آسمانِ زندگی
کرکے برگ و گُل سے خالی گُلستانٍ زندگی
کیا سِتم ہے آج وہ بھی درپئے آزار ہیں
ایک مُدٌت سے رہے جو میری جانِ زندگی
کر لِیا اُس دل کے رہزن کو ہی میرِ کارواں
اب...
غزل
زندگی خاک نہ تھی خاک اُڑا تے گُزری
تجھ سے کیا کہتے تِرے پاس جو آتے گُزری
دن جو گُذرا ، تو کسی یاد کی رَو میں گُذرا
شام آئی، تو کوئی خواب دِکھا تے گُزری
اچھے وقتوں کی تمنّا میں رہی عُمرِ رَواں
وقت ایساتھا کہ بس ناز اُٹھاتے گُزری
زندگی جس کے مُقدّر میں ہو خوشیاں تیری !
اُس کو آتا ہے...
غزل
شیخ آخر یہ صُراحی ہے، کوئی خُم تو نہیں
اور بھی، بیٹھے ہیں محِفل میں تمہی تم تو نہیں
ناخُدا ہوش میں آ، ہوش تِرے گُم تو نہیں
یہ تو ساحِل کے ہیں آثار ، تلاطُم تو نہیں
ناز و انداز و ادا ، ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی !
تیری تصویر میں سب کُچھ ہے تکلّم تو نہیں
دیکھ، انجام محبّت کا بُرا ہوتا ہے...
غزل
پیشِ نظر ہوں حُسن کی رعنائیاں وہی
دِل کی طلب ہے حشر کی سامانیاں وہی
اِک عمر ہوگئی ہے اگرچہ وصال کو
نظروں میں ہیں رَچی تِری رعانائیاں وہی
میں کب کا بجھ چُکا ہوں مجھے یاد بھی نہیں
دِل میں ہے کیوں رہیں تِری تابانیاں وہی
بیٹھا تِرے خیال سے ہُوں انجمن کئے
اے کاش پھر...
غزل
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا
یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مِل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا
روئے گی صُبح ہمَیں شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا
وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں...
غزل
عزیز حامد مدنی
سنبھل نہ پائے تو تقصیرِ واقعی بھی نہیں
ہر اِک پہ سہل کچھ آدابِ مے کشی بھی نہیں
اِدھر اُدھر سے حدیثِ غمِ جہاں کہہ کر
تِری ہی بات کی اور تیری بات کی بھی نہیں
وفائے وعدہ پہ دِل نکتہ چیں ہے وہ خاموش
حدیثِ مہر و وفاآج گفتنی بھی نہیں
بِکھر کے حُسنِ جہاں کا نظام کیا ہوگا
یہ...
غزل
عزیز حامد مدنی
کیفیت اُس کی قبا میں وہ قدِ بالا سے تھی
گفتگو ساحِل کی اِک ٹھہرے ہُوئے دریا سے تھی
زاویے کیا کیا دِیے تھے تیرے رُخ کو شوق نے
انجمن سی انجمن تھی اور دلِ تنہا سے تھی
جادۂ بے میل و منزل وقت کا اِک خواب تھا
رہ گُزارِ حال بھی مِلتی ہُوئی فردا سے تھی
وہ بھی سنگِ محتسب کی نذر...
غزلِ
شیخ محمد ابراہیم ذوق
برسوں ہو ہجر، وصل ہو گر ایک دَم نصِیب
کم ہوگا کوئی مجھ سا محبّت میں کم نصِیب
گر میری خاک کو ہوں تمھارے قدم نصِیب
کھایا کریں نصِیب کی میرے قسم نصِیب
ماہی ہو یا ہو ماہ، وہ ہو ایک یا ہزار!
بے داغ ہو نہ دستِ فلک سے درِم نصِیب
بہتر ہے لاکھ لُطف و کرم سے تِرے...
غزلِ
میر تقی میؔر
چمکی ہے جب سے برق ِسَحر گُلستاں کی اور
جی لگ رہا ہے خار و خسِ آشیاں کی اور
وہ کیا یہ دل لگی ہے فنا میں ، کہ رفتگاں
مُنہ کرکے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور
رنگِ سُخن تو دیکھ ، کہ حیرت سے باغ میں!
رہجاتے ہیں گےدیکھ کے گُل اُس دَہاں کی اور
آنکھیں سی کُھل ہی جائیں گی...
ہوگیا بدر ہلال اِس کا سبب روشن ہے
روز گھستا تھا تِرے در پہ جبیں تھوڑی سی
منزلِ گور میں کیا خاک مِلے گا آرام
خُو تڑپنے کی وہی، اور زمِیں تھوڑی سی
آپ کو غیر کی راحت کا مُبارک ہو خیال
خیر تکلیف اُٹھالیں گے ہَمِیں تھوڑی سی
اکبر الٰہ آبادی
غزلِ
میر تقی میؔر
آئی ہے اُس کے کُوچے سے ہوکر صبا کُچھ اور
کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہَوا کُچھ اور
تدبِیر دوستوں کی مجھے نفع کیا کرے
بیماری اور کُچھ ہے، کریں ہیں دوا کُچھ اور
مستان ِعِشق و اہلِ خرابات میں ہے فرق
مے خوارگی کُچھ اور ہے یہ ، نشّہ تھا کُچھ اور
کیا نسبت اُس کی قامتِ...