شفیق خلش ::::: اب یہ مُمکن نہیں نِکلیں گے کبھی دام سے ہم :::::Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین




غزل


اب یہ مُمکن نہیں نِکلیں گے کبھی دام سے ہم
سب کہَیں عِشق کے ہونے پہ گئے کام سے ہم

کون کہتا ہے، ہیں بے کل غم و آلام سے ہم
جو تصوّر ہے تمھارا، تو ہیں آرام سے ہم

اب نہ یہ فکر کہ ہیں کون، کہاں پر ہم ہیں !
جانے جاتے ہیں اگر اب، تو دِئے نام سے ہم

یُوں نہ تجدیدِ تعلّق کا اب اِمکان رہا !
ٹھہرے نظروں میں ہیں اُس کی بھی تو بدنام سے ہم

کیا پہنچ پائیں گے منزِل پہ کبھی یہ سوچو !
دِل گرفتہ اگر ایسے رہے ہر گام سے ہم

فکرِ فردا کریں، کُچھ غور رہے حال پہ تب !
جب نِکل پائیں بھی گُزرے ہُوئے ایّام سے ہم

جاں میں طاقت بھی نہیں اب، کہ زمانے سے لڑیں
کھو چُکے زور وہ سب ہجر کے آلام سے ہم

وہ گلی یاد ہے مجنوُں کو، تِرے پاگل کو
جانے جاتے تھے جہاں، ایسے کئی نام سے ہم

کہہ کے اب تم کو خَلِش کون پُکارے گا یہاں
ہو گئے اپنا وطن چھوڑ کے بے نام سے ہم

شفیق خلش



 
Top