شفیق خلش ::::: اُن کی طرف سے جب سے پیغام سے گئے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین




غزل

شفیق خلش
اُن کی طرف سے جب سے پیغام سے گئے
اپنے اِرادے سارے انجام سے گئے

اُلفت میں خوش رُخوں کی، خوش نام سے گئے
ہم جس جگہ گئے ہیں ، بدنام سے گئے

اظہارِ آرزو سے کُچھ کم غضب ہُوا
مِلنا مِلانا دُور اِک پیغام سے گئے

مِلتی ہے زندگی کو راحت خیال سے
حاصل وہ دِید کی ہم اِنعام سے گئے

جب سے نِہاں ہُوئی ہے آنکھوں سے وہ غزل
اشعار نکتہ سنجی، اِیہام سے گئے

افسوس حرصِ دِل پر رہتا نہیں ہے کب
لالچ میں ہم سبُو کی اِک جام سے گئے

درباں نے دُور دَر سے، پھینکا ہمَیں ہمیش
کب اُٹھ کے گھر کسی کی دُشنام سے گئے

تھا زعم، بچ نِکلنے کا دام سے خلش!
کم احتیاطِ اُلفت میں، کام سے گئے

شفیق خلش

 
Top