نتائج تلاش

  1. طارق شاہ

    جگر مُراد آبادی :::::: منصوُر ہر اِک دَور میں بیدار ہُوا ہے :::::: Jigar Muradabaadi

    منصوُر ہر اِک دَور میں بیدار ہُوا ہے افسانہ کہِیں ختم سَر ِدار ہُوا ہے مُدّت میں جو اُس شوخ کا دِیدار ہُوا ہے تا دیر ، سمجھنا مجھے دُشوار ہُوا ہے بے نام و نِشاں ایسا بھی اِک وار ہُوا ہے ہر عزم، ہر اِک حوصلہ بیکار ہُوا ہے کیا کیا نہ تپایا ہے اِسے آتش ِغم نے تب جا کے یہ دِل شُعلۂ بیدار ہُوا...
  2. طارق شاہ

    فانی فانی شوکت علی خاں فانؔی بدایونی ::::: وہ جی گیا جو عِشق میں جی سے گُزر گیا :::::: Fani Badayuni

    غزل وہ جی گیا جو عِشق میں جی سے گُزر گیا عیسیٰ کو ہو نَوِید کہ بیمار مر گیا آزاد کُچھ ہُوئے ہیں اَسِیرانِ زندگی یعنی جمالِ یار کا صدقہ اُتر گیا دُنیا میں حالِ آمد و رفتِ بَشر نہ پُوچھ بے اختیار آ کے رہا ، بے خبر گیا شاید کہ شام ِہجر کے مارے بھی جی اُٹھیں صُبحِ بہار ِحشر کا چہرہ اُتر گیا آیا...
  3. طارق شاہ

    حمایت علی شاؔعر :::::: اُس کے غم کو، غمِ ہستی تو مِرے دِل نہ بنا :::::: Himayat Ali Shair

    غزل اُس کے غم کو، غمِ ہستی تو مِرے دِل نہ بنا زِیست مُشکل ہے اِسے اور بھی مُشکل نہ بنا تُو بھی محدُود نہ ہو، مجھ کو بھی محدُود نہ کر اپنے نقشِ کفِ پا کو مِری منزِل نہ بنا اور بڑھ جائے گی وِیرانیِ دل جانِ جہاں ! میری خلوت گہہِ خاموش کو محفِل نہ بنا دِل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا...
  4. طارق شاہ

    جگر مُراد آبادی :::::: ذرّوں سے باتیں کرتے ہیں، دِیوار و در سے ہم :::::: Jigar Muradabaadi

    ذرّوں سے باتیں کرتے ہیں، دِیوار و دَر سے ہم وابستہ کِس قدر ہیں ، تِری رہگُذر سے ہم دیکھا جہاں بھی حُسن، وہیں لَوٹ ہو گئے! تنگ آ گئے ہیں اپنے مزاجِ نظر سے ہم چھیڑَیں کسی سے، اور ہمارے ہی سامنے! لڑتے ہیں دِل ہی دِل میں، نَسِیمِ سَحر سے ہم اِتنی سی بات پر ہے بس اِک جنگِ زرگری پہلے اُدھر...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہونگے :::::: Shafiq Khalish

    غزل جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہونگے اُتنا اُتنا ہی، وہ مِلنے کو پریشاں ہونگے ہیں فقط ہم ہی نہیں دِید کے طالِب اُس کے ! گھر سے نِکلیں جو کبھی جان کے حیراں ہونگے ہر قدم اُس کو دِلائے گا مِرا ہی احساس اُس کی راہوں میں بِچھے یُوں مِرے ارماں ہونگے پھر بہار آئی گی، اور پھر مِری یادیں...
  6. طارق شاہ

    شاذ تمکنت شاؔذ تمکنت :::::: یہ حُسنِ عُمرِ دو روزہ تغیّرات سے ہے ::::::Shaz Tamkanat

    غزل یہ حُسنِ عُمرِ دو روزہ تغیّرات سے ہے ثباتِ رنگ اِسی رنگِ بے ثبات سے ہے پرودِیئے مِرے آنسوسَحر کی کِرنوں نے مگر وہ درد، جو پہلوُ میں پچھلی رات سے ہے یہ کارخانۂ سُود و زیانِ مہر و وفا نہ تیری جیت سے قائم، نہ میری مات سے ہے مجھے تو فُرصتِ سیرِ صِفاتِ حُسن نہیں یہاں جو کام ہے، وابستہ تیری...
  7. طارق شاہ

    مجاز مجاؔز لکھنوی :::::: کمالِ عشق ہے دیوانہ ہوگیا ہُوں میں::::::Majaz Lakhnawi

    غزل کمالِ عشق ہے دِیوانہ ہوگیا ہُوں مَیں یہ کِس کے ہاتھ سے دامن چُھڑا رہا ہُوں مَیں تمھیں تو ہو، جِسے کہتی ہے ناخُدا دُنیا بچا سکو تو بچا لو، کہ ڈُوبتا ہُوں مَیں یہ میرے عِشق کی مجبُورِیاں، معاذاللہ! تمھارا راز، تمھیں سے چُھپا رہا ہُوں مَیں اِس اِک حجاب پہ سَو بے حجابیاں صدقے ! جہاں سے...
  8. طارق شاہ

    ناصر کاظمی ترجمۂ پی، فو،جن- نظم از وی تی:::::: Translation

    پی،فو،جن ۔۔۔ اُس کے ریشمی پِھرَن کی سَر سَر اب خاموش ہے مر مر کی پگڈنڈی دُھول سے اٹی ہُوئی ہے اُس کا خالی کمرہ کِتنا ٹھنڈا اور سُونا ہے دروازوں پر، گِرے ہُوئے پتّوں کے ڈھیر لگے ہیں اُس سندری کے دھیان میں بیٹھے مَیں اپنے دُکھیارے من کی کیسے دِھیر بندھاؤں (نظم : وی تی) (نظم: وی تی) ترجمہ ...
  9. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::::سُناتا ہے کوئی بُھولی کہانی ::::::Nasir Kazmi

    غزل سُناتا ہے کوئی بُھولی کہانی مہکتے مِیٹھے دریاؤں کا پانی یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے سُنا ہے میں نے لوگوں‌کی زبانی یہاں اِک شہر تھا ،شہرِ نگاراں ! نہ چھوڑی وقت نے اُس کی نشانی مَیں وہ دِل ہُوں دبِستانِ الَم کا جسے رَوئے گی صدیوں شادمانی تصوّر نے اُسے دیکھا ہے اکثر خِرَد کہتی ہے جس کو...
  10. طارق شاہ

    شہریاؔر :::::: کب سماں دیکھیں گے ہم زخموں کے بھر جانے کا:::::: Shahryar

    غزل کب سماں دیکھیں گے ہم زخموں کے بھر جانے کا نام لیتا ہی نہیں وقت گُزرجانے کا جانے وہ کون ہے جو دامنِ دِل کھینچتا ہے جب کبھی ہم نے اِرادہ کِیا مرجانے کا دستبردار، ابھی تیری طلب سے ہو جائیں! کوئی رستہ بھی تو ہو، لَوٹ کے گھر جانے کا لاتا ہم تک بھی کوئی، نیند سے بَوجھل راتیں آتا ہم کو بھی...
  11. طارق شاہ

    بشیر بدر :::::آنکھ رنجیدگی سے بھر آئی:::::: Dr. Bashir Badr

    غزل آنکھ رنجیدگی سے بھر آئی آج سُننے کو وہ خبر آئی اِن مسائل میں تیری یاد بھی کیا جیسے تتلی پہاڑ پر آئی اپنی ماں کی طرح اُداس اُداس بیٹی شادی کے بعد گھر آئی اب تو مَیں بھی نظر نہیں آتا اے خُدا ! کون سی ڈگر آئی ؟ تم نے جو کُچھ کِیا شرافت میں! وہ ندامت بھی میرے سر آئی ڈاکٹر بشیر بدؔر
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں:::::: Shafiq Khalish

    غزل دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں ہم اُن سے کچھ نہ کہیں گے یہ ٹھان بیٹھے ہیں رہِ غزال میں باندھے مچان بیٹھے ہیں ہم آزمانے کو قسمت ہی آن بیٹھے ہیں کُشادہ دل ہیں، سِتم سے رہے ہیں کب خائف کریں وہ ظُلم بھی ہم پرجو ٹھان بیٹھے ہیں نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی گلی میں شوقِ تجلّی میں...
  13. طارق شاہ

    میر میر مِیر تقی مِیؔر :::::: ہم بھی پِھرتے ہیں یک حَشَم لے کر:::::: Mir Taqi Mir

    ہم بھی پِھرتے ہیں یک حَشَم لے کر دستۂ داغ و فوجِ غم لے کر دست کش نالہ، پیش رُو گریہ آہ چلتی ہے یاں، علَم لے کر مرگ اِک ماندَگی کاوقفہ ہے! یعنی آگے چلیں گے دَم لے کر اُس کے اُوپر، کہ دِل سے تھا نزدِیک ! غم ِدُوری چلے ہیں ہم لے کر بارہا صید گہ سے اُس کی گئے داغِ یاس ،آہُوئے حَرَم لے کر...
  14. طارق شاہ

    سیماب اکبر آبادی سیمابؔ اکبر آبادی ::::: محفلِ عالَم میں پیدا برہَمِی ہونے لگی ::::: Seemab Akbarabadi

    غزل محِفلِ عالَم میں پیدا برہَمی ہونے لگی زندگی ، خود ہی حرِیفِ زندگی ہونے لگی سعئیِ تجدِیدِ جنُونِ عاشقی ہونے لگی یاد بھی ہونے لگی، فریاد بھی ہونے لگی شرم سے آنکھیں جُھکا دِیں احتیاطِ ضبط نے ! جب ، نظر بھی ترجمانِ بیکسی ہونے لگی دشتِ ایمن میں چراغِ طُور ٹھنڈا ہو گیا جلوہ گاہِ دِل میں،...
  15. طارق شاہ

    میر مِیر تقی مِیؔر :::::: غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے:::::: Mir Taqi Mir

    غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے یہ رات نہیں وہ، جو کہانی میں گُزر جائے ہے طُرفہ مُفتّن نِگہ اُس آئینہ رُو کی! اِک پَل میں کرے سینکڑوں خُوں، اور مُکر جائے نہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود، نہ کعبہ! جو کوئی تلاشی ہو تِرا ، آہ ! کِدھر جائے ہر صُبح تو خورشید تِرے مُنہ پہ چڑھے ہے ایسا نہ ہو ،...
  16. طارق شاہ

    فانی شوکت علی خاں فانؔی بدایونی ::::: غم مجسّم نظر آیا ، تو ہم اِنساں سمجھے :::::: Fani Badayuni

    غم مجسّم نظر آیا ، تو ہم اِنساں سمجھے برق جب جِسم سے وابسطہ ہُوئی ، جاں سمجھے شوق کی گرمیِ ہنگامہ کو وحشت جانا جمع جب خاطرِ وحشت ہُوئی، ارماں سمجھے حکمِ وحشت ہےکہ، زِنداں کو بھی صحرا جانو دِل وہ آزاد کہ صحرا کو بھی زِنداں سمجھے فانؔی اِس عالَمِ ظاہر میں سراپا غم تھا ! چُھپ گیا خاک میں تو...
  17. طارق شاہ

    قتیل شفائی ::::::چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں:::::: Qateel Shifai

    چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن ایک مُٹّھی میں ، مِرے خواب کہاں آتے ہیں مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا! ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے! نیند آئی بھی تو ،...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: روز و شب کا رہا خیال نہیں!:::::: Shafiq Khalish

    روز و شب کا رہا خیال نہیں! کیوں یُوں گذریں کا بھی ملال نہیں اک تنومند ہے شجر دُکھ کا غم مِرا، اب غمِ نہال نہیں لوگ پُوچھیں ہیں نام تک اُس کا صرف افسُردگی سوال نہیں کچھ بھی کہنا کہاں ہے کچھ مُشکل کچھ کہوں دِل کی، یہ مجال نہیں لوگ ہنستے ہیں حال پر جو مِرے میں بھی ہنستا ہوں کیا کمال نہیں آ...
  19. طارق شاہ

    جگر مُراد آبادی :::::: کوئی جیتا ، کوئی مرتا ہی رہا :::::: Jigar Muradabaadi

    کوئی جیتا ، کوئی مرتا ہی رہا عِشق اپنا کام کرتا ہی رہا جمع خاطر کوئی کرتا ہی رہا دِل کا شیرازہ بِکھرتا ہی رہا غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں دِل وہ پیمانہ، کہ بھرتا ہی رہا حُسن تو تھک بھی گیا ، لیکن یہ عِشق کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا وہ مِٹاتے ہی رہے، لیکن یہ دِل نقش بن بن کر اُبھرتا...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے ::::: Shafiq Khalish

    غزل جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے پیار مجھ سے تمھیں پہلا سا نہیں، کُچھ کم ہے زیست، کب اُس کے تخیّل سے حَسیں کُچھ کم ہے اب بھی صُورت ہے وہی دِل کے قرِیں، کُچھ کم ہے اُن پہ دعویٰ ،کہ ہیں پریوں سے حَسِیں، کُچھ کم ہے کون کہہ سکتا ہے حُوروں سی نہیں، کُچھ کم ہے رُخِ سیماب پہ...
Top