منصوُر ہر اِک دَور میں بیدار ہُوا ہے
افسانہ کہِیں ختم سَر ِدار ہُوا ہے
مُدّت میں جو اُس شوخ کا دِیدار ہُوا ہے
تا دیر ، سمجھنا مجھے دُشوار ہُوا ہے
بے نام و نِشاں ایسا بھی اِک وار ہُوا ہے
ہر عزم، ہر اِک حوصلہ بیکار ہُوا ہے
کیا کیا نہ تپایا ہے اِسے آتش ِغم نے
تب جا کے یہ دِل شُعلۂ بیدار ہُوا...
غزل
وہ جی گیا جو عِشق میں جی سے گُزر گیا
عیسیٰ کو ہو نَوِید کہ بیمار مر گیا
آزاد کُچھ ہُوئے ہیں اَسِیرانِ زندگی
یعنی جمالِ یار کا صدقہ اُتر گیا
دُنیا میں حالِ آمد و رفتِ بَشر نہ پُوچھ
بے اختیار آ کے رہا ، بے خبر گیا
شاید کہ شام ِہجر کے مارے بھی جی اُٹھیں
صُبحِ بہار ِحشر کا چہرہ اُتر گیا
آیا...
غزل
اُس کے غم کو، غمِ ہستی تو مِرے دِل نہ بنا
زِیست مُشکل ہے اِسے اور بھی مُشکل نہ بنا
تُو بھی محدُود نہ ہو، مجھ کو بھی محدُود نہ کر
اپنے نقشِ کفِ پا کو مِری منزِل نہ بنا
اور بڑھ جائے گی وِیرانیِ دل جانِ جہاں !
میری خلوت گہہِ خاموش کو محفِل نہ بنا
دِل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا...
ذرّوں سے باتیں کرتے ہیں، دِیوار و دَر سے ہم
وابستہ کِس قدر ہیں ، تِری رہگُذر سے ہم
دیکھا جہاں بھی حُسن، وہیں لَوٹ ہو گئے!
تنگ آ گئے ہیں اپنے مزاجِ نظر سے ہم
چھیڑَیں کسی سے، اور ہمارے ہی سامنے!
لڑتے ہیں دِل ہی دِل میں، نَسِیمِ سَحر سے ہم
اِتنی سی بات پر ہے بس اِک جنگِ زرگری
پہلے اُدھر...
غزل
جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہونگے
اُتنا اُتنا ہی، وہ مِلنے کو پریشاں ہونگے
ہیں فقط ہم ہی نہیں دِید کے طالِب اُس کے !
گھر سے نِکلیں جو کبھی جان کے حیراں ہونگے
ہر قدم اُس کو دِلائے گا مِرا ہی احساس
اُس کی راہوں میں بِچھے یُوں مِرے ارماں ہونگے
پھر بہار آئی گی، اور پھر مِری یادیں...
غزل
یہ حُسنِ عُمرِ دو روزہ تغیّرات سے ہے
ثباتِ رنگ اِسی رنگِ بے ثبات سے ہے
پرودِیئے مِرے آنسوسَحر کی کِرنوں نے
مگر وہ درد، جو پہلوُ میں پچھلی رات سے ہے
یہ کارخانۂ سُود و زیانِ مہر و وفا
نہ تیری جیت سے قائم، نہ میری مات سے ہے
مجھے تو فُرصتِ سیرِ صِفاتِ حُسن نہیں
یہاں جو کام ہے، وابستہ تیری...
غزل
کمالِ عشق ہے دِیوانہ ہوگیا ہُوں مَیں
یہ کِس کے ہاتھ سے دامن چُھڑا رہا ہُوں مَیں
تمھیں تو ہو، جِسے کہتی ہے ناخُدا دُنیا
بچا سکو تو بچا لو، کہ ڈُوبتا ہُوں مَیں
یہ میرے عِشق کی مجبُورِیاں، معاذاللہ!
تمھارا راز، تمھیں سے چُھپا رہا ہُوں مَیں
اِس اِک حجاب پہ سَو بے حجابیاں صدقے !
جہاں سے...
پی،فو،جن
۔۔۔
اُس کے ریشمی پِھرَن کی سَر سَر اب خاموش ہے
مر مر کی پگڈنڈی دُھول سے اٹی ہُوئی ہے
اُس کا خالی کمرہ کِتنا ٹھنڈا اور سُونا ہے
دروازوں پر، گِرے ہُوئے پتّوں کے ڈھیر لگے ہیں
اُس سندری کے دھیان میں بیٹھے
مَیں اپنے دُکھیارے من کی کیسے دِھیر بندھاؤں
(نظم : وی تی)
(نظم: وی تی)
ترجمہ ...
غزل
سُناتا ہے کوئی بُھولی کہانی
مہکتے مِیٹھے دریاؤں کا پانی
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سُنا ہے میں نے لوگوںکی زبانی
یہاں اِک شہر تھا ،شہرِ نگاراں !
نہ چھوڑی وقت نے اُس کی نشانی
مَیں وہ دِل ہُوں دبِستانِ الَم کا
جسے رَوئے گی صدیوں شادمانی
تصوّر نے اُسے دیکھا ہے اکثر
خِرَد کہتی ہے جس کو...
غزل
کب سماں دیکھیں گے ہم زخموں کے بھر جانے کا
نام لیتا ہی نہیں وقت گُزرجانے کا
جانے وہ کون ہے جو دامنِ دِل کھینچتا ہے
جب کبھی ہم نے اِرادہ کِیا مرجانے کا
دستبردار، ابھی تیری طلب سے ہو جائیں!
کوئی رستہ بھی تو ہو، لَوٹ کے گھر جانے کا
لاتا ہم تک بھی کوئی، نیند سے بَوجھل راتیں
آتا ہم کو بھی...
غزل
آنکھ رنجیدگی سے بھر آئی
آج سُننے کو وہ خبر آئی
اِن مسائل میں تیری یاد بھی کیا
جیسے تتلی پہاڑ پر آئی
اپنی ماں کی طرح اُداس اُداس
بیٹی شادی کے بعد گھر آئی
اب تو مَیں بھی نظر نہیں آتا
اے خُدا ! کون سی ڈگر آئی ؟
تم نے جو کُچھ کِیا شرافت میں!
وہ ندامت بھی میرے سر آئی
ڈاکٹر بشیر بدؔر
غزل
دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں
ہم اُن سے کچھ نہ کہیں گے یہ ٹھان بیٹھے ہیں
رہِ غزال میں باندھے مچان بیٹھے ہیں
ہم آزمانے کو قسمت ہی آن بیٹھے ہیں
کُشادہ دل ہیں، سِتم سے رہے ہیں کب خائف
کریں وہ ظُلم بھی ہم پرجو ٹھان بیٹھے ہیں
نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی
گلی میں شوقِ تجلّی میں...
ہم بھی پِھرتے ہیں یک حَشَم لے کر
دستۂ داغ و فوجِ غم لے کر
دست کش نالہ، پیش رُو گریہ
آہ چلتی ہے یاں، علَم لے کر
مرگ اِک ماندَگی کاوقفہ ہے!
یعنی آگے چلیں گے دَم لے کر
اُس کے اُوپر، کہ دِل سے تھا نزدِیک !
غم ِدُوری چلے ہیں ہم لے کر
بارہا صید گہ سے اُس کی گئے
داغِ یاس ،آہُوئے حَرَم لے کر...
غزل
محِفلِ عالَم میں پیدا برہَمی ہونے لگی
زندگی ، خود ہی حرِیفِ زندگی ہونے لگی
سعئیِ تجدِیدِ جنُونِ عاشقی ہونے لگی
یاد بھی ہونے لگی، فریاد بھی ہونے لگی
شرم سے آنکھیں جُھکا دِیں احتیاطِ ضبط نے !
جب ، نظر بھی ترجمانِ بیکسی ہونے لگی
دشتِ ایمن میں چراغِ طُور ٹھنڈا ہو گیا
جلوہ گاہِ دِل میں،...
غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ، جو کہانی میں گُزر جائے
ہے طُرفہ مُفتّن نِگہ اُس آئینہ رُو کی!
اِک پَل میں کرے سینکڑوں خُوں، اور مُکر جائے
نہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود، نہ کعبہ!
جو کوئی تلاشی ہو تِرا ، آہ ! کِدھر جائے
ہر صُبح تو خورشید تِرے مُنہ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو ،...
غم مجسّم نظر آیا ، تو ہم اِنساں سمجھے
برق جب جِسم سے وابسطہ ہُوئی ، جاں سمجھے
شوق کی گرمیِ ہنگامہ کو وحشت جانا
جمع جب خاطرِ وحشت ہُوئی، ارماں سمجھے
حکمِ وحشت ہےکہ، زِنداں کو بھی صحرا جانو
دِل وہ آزاد کہ صحرا کو بھی زِنداں سمجھے
فانؔی اِس عالَمِ ظاہر میں سراپا غم تھا !
چُھپ گیا خاک میں تو...
چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں ، مِرے خواب کہاں آتے ہیں
مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا!
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں
میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے!
نیند آئی بھی تو ،...
روز و شب کا رہا خیال نہیں!
کیوں یُوں گذریں کا بھی ملال نہیں
اک تنومند ہے شجر دُکھ کا
غم مِرا، اب غمِ نہال نہیں
لوگ پُوچھیں ہیں نام تک اُس کا
صرف افسُردگی سوال نہیں
کچھ بھی کہنا کہاں ہے کچھ مُشکل
کچھ کہوں دِل کی، یہ مجال نہیں
لوگ ہنستے ہیں حال پر جو مِرے
میں بھی ہنستا ہوں کیا کمال نہیں
آ...
کوئی جیتا ، کوئی مرتا ہی رہا
عِشق اپنا کام کرتا ہی رہا
جمع خاطر کوئی کرتا ہی رہا
دِل کا شیرازہ بِکھرتا ہی رہا
غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں
دِل وہ پیمانہ، کہ بھرتا ہی رہا
حُسن تو تھک بھی گیا ، لیکن یہ عِشق
کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا
وہ مِٹاتے ہی رہے، لیکن یہ دِل
نقش بن بن کر اُبھرتا...
غزل
جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے
پیار مجھ سے تمھیں پہلا سا نہیں، کُچھ کم ہے
زیست، کب اُس کے تخیّل سے حَسیں کُچھ کم ہے
اب بھی صُورت ہے وہی دِل کے قرِیں، کُچھ کم ہے
اُن پہ دعویٰ ،کہ ہیں پریوں سے حَسِیں، کُچھ کم ہے
کون کہہ سکتا ہے حُوروں سی نہیں، کُچھ کم ہے
رُخِ سیماب پہ...