غزلِ
فراؔق گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
دِیدار میں اِک طُرفہ دِیدار نظر آیا
ہر بار چُھپا کوئی ، ہر بار نظر آیا
چھالوں کو بیاباں بھی گُلزار نظر آیا
جب چھیڑ پر آمادہ ہر خار نظر آیا
صُبحِ شبِ ہجراں کی وہ چاک گریبانی
اِک عالَمِ نیرنگی ہر تار نظر آیا
ہو صبر ،کہ بیتابی، اُمِّید کہ،...
غزل
اب تو ایسی کوئی گھڑی آئے!
حُسن کو خود سُپردگی آئے
اب ہَمَیں دے گی کیامزہ یہ شراب
ہم تو آنکھوں سے اُس کی، پی آئے
دُشمنوں سے بھی راہ و رسم بڑھیں
دوستوں میں جو کچھ کمی آئے
دِل کے آنگن میں کُچھ اندھیرا ہے
کسی مُکھڑے کی روشنی آئے
اِس طرح آرہا ہے دِل کا مکیں...
غزل
جو اہلِ دِل ہیں آلِ پیمبرؑ کے ساتھ ساتھ
محشر میں ہونگے ساقئ کوثرؑ کے ساتھ ساتھ
کمتر کا بھی مقام ہے برتر کے ساتھ ساتھ
کانٹے لگے ہُوئے ہیں گُلِ تر کے ساتھ ساتھ
آئی نہ جانے کیوں کسی بچھڑے ہُوئے کی یاد
دیکھے جو دو پرند برابر کے ساتھ ساتھ
میرا وجوُد بھی تو بنے اِک چراغِ نُور
گردِش...
جھَولا جیہا
گھُوک جے ویلے چرخے دی اجے مَٹّھی جیہی
میریاں کناں دے وِچ، کُجھ بولدائے ہولا جیہا
کوئی ایسی چاپپ مَینُوں نیڑے نیڑے چاپدی
کوئی گمّیں وِچ جِیویں لبھدا پِھرے وَولا جیہا
خوف کِس ہونی دا سانہواں نال نتّھی ہوگیائے
دِل دے وِچ پِھردا اے پرچھانویں دا اِک جَھولا جیہا
مَیں محلّے والیاں...
غزل
کہن دے زُلفاں دا قصّہ کہن دے
بہن دے کُجھ چھانویں بہن دے
کُجھ نہ کُجھ پردہ وی ہٹّی والیا
رہن دے مومی لفافہ رہن دے
جھٹ دا جھٹ بہنائے دُراڑے جاونائے
بہن دے سانُوں وی لاگے بہن دے
تُوں جے خوشبُوواں دے پینڈے پَے گیا مَیں
کھہن دے کنڈیاں نُوں راہیا کھہن دے
دِل نے ہتّھوں جاونا سی ٹُر گیا ئے...
مرثیۂ امامؑ
رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بَلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اِک دِل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غُربت کی، پریشانی کی شب ہے !
یہ خانۂ شبّیر کی وِیرانی کی شب ہے
دُشمن کی سپہ خواب میں مدہوش پڑی تھی
پَل بھر کو کسی کی...
غزل
شفیق خلؔش
خواب ہی خواب اب تلک دیکھوں
کب حقیقت میں اِ ک جھلک دیکھوں
کوئی صُورت دِکھے وہی صُورت
معجزہ کچھ تو، اے فلک دیکھوں
چشم ترسے ہے بَوجھ پلکوں پر
جی کرے غم ذرا چھلک دیکھوں
گِرتےقطرے کی کیا حقیقت ہے
بن کے آنسو میں خود ڈھلک دیکھوں
دِید سے جس کی ، زندگی بدلی!
کاش اُس کی میں...
یاد پھر آئی تِری، موسم سلونا ہو گیا
شُغل سا آنکھوں کا بس دامن بھگونا ہو گیا
اب کسی سے کیا کہیں ہم کِس لئے برباد ہیں
اب کسی کی کیوں سُنیں جو کچھ تھا ہونا ، ہو گیا
گیت بابُل کے سُنانے تیری سکھیاں آ گئیں
میں تو بس بچپن کا اِک ٹُوٹا کھلونا ہو گیا
میری پلکوں پر مِرے خوابوں کی کرچیں رہ گئیں
نیند...
امیر خُسرو کی فارسی غزل کا منظُوم ترجمہ
یہ رنگینئِ نو بہار اللہ اللہ
یہ جامِ مَئے خوشگوار اللہ اللہ
اُدھر ہیں نظر میں نظارے چَمن کے
اِدھر رُو بَرُو رُوئے یار اللہ اللہ
اُدھر جلوۂ مُضطرب، توبہ توبہ
اِدھر یہ دِلِ بے قرار اللہ اللہ
وہ لب ہیں، کہ ہے وجد میں موجِ کوثر
وہ زُلفیں...
امیر خُسرو کی فارسی غزل کا ترجمہ
غمِ فُرقت میں جو جینےکا سماں ہو تو جیوں
یعنی ،اِک جان کے بعد اور بھی جاں ہو تو جیوں
تیری آنکھیں مجھے جینے نہیں دیتیں اِک پَل
شوخ غمزوں سےتِرے مجھ کو اماں ہو تو جیوں
بے یقینی کا یہ عالَم ہو ، تو جینا کیسا
ایک پَل بھی، مجھے جینے کا گُماں ہو تو جیوں
یُوں تو...
غزل
شفیق خلؔش
ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں
کیسی کیسی صُورتوں میں وقت کی آیا ہُوں میں
قُربِ محبُوباں میں اپنی نارَسائی کے سبب
گھیرکرساری اُداسی اپنے گھر لایا ہُوں میں
گو قرار آئے نہ میرے دِل کو اُن سے رُوٹھ کر
جب کہ مِلنے سے اِسی پر زخم کھا آیا ہُوں میں
بے سبب اُن سے...
غزل
یہ مجھ سے کِس طرح کی ضد دل ِ برباد کرتا ہے
میں جِس کو بُھولنا چاہُوں ، اُسی کو یاد کرتا ہے
قفس میں جِس کے بازُو شل ہُوئے رزقِ اَسیری سے
وہی صیدِ زبُوں صیّاد کو صیّاد کرتا ہے
طریقے ظُلم کے صیّاد نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اُڑ نہیں سکتا ، اُسے آزاد کرتا ہے
اُفق سے دیکھ کر رعنائیاں ہم خاک...
غزل
رات ہم نے بھی یُوں خوشی کر لی
دِل جَلا کر ہی روشنی کر لی
آ تے جا تے ر ہا کر و صاحب!
آنے جانے میں کیوں کمی کر لی
کانٹے دامن تو تھام لیتے ہیں
کیسے پُھولوں سے دوستی کر لی
ہم نے اِک تیری دوستی کے لئے
ساری دُنیا سے دُشمنی کر لی
تیری آنکھوں کی گہری جِھیلوں میں
غرق ہم نے یہ زندگی کر لی
ہم نے...
غزل
شفیق خلؔش
چراغِ دِل تو ہو روشن، رَسد لہُو ہی سہی
' نہیں وصال میسّر تو آرزُو ہی سہی '
کوئی تو کام ہو ایسا کہ زندگی ہو حَسِیں
نہیں جو پیارمقدّر، توجُستجُو ہی سہی
یہی خیال لئے، ہم چمن میں جاتے ہیں !
وہ گل مِلے نہ مِلے اُس کے رنگ و بُو ہی سہی
عجیب بات ہے حاصِل وصال ہے نہ فِراق
جو تیرے...
غزلِ
ہنسے تو آنکھ سے آنسو رَواں ہمارے ہُوئے
کہ ہم پہ دوست بہت مہرباں ہمارے ہُوئے
بہت سے زخم ہیں ایسے، جو اُن کے نام کے ہیں
بہت سے قرض سَرِ دوستاں ہمارے ہُوئے
کہیں تو، آگ لگی ہے وجُود کے اندر
کوئی تو دُکھ ہے کہ، چہرے دُھواں ہمارے ہُوئے
گرج برس کے نہ ہم کو ڈُبو سکے بادل
تو یہ...
غزل
شفیق خلؔش
رنجشوں کو دِل میں تم اپنے جگہ دینے لگے
غم ہی کیا کم تھے جو اَب یوں بھی سزا دینے لگے
خواہشیں دِل کی دبانےسے کہیں دبتی ہیں کیا
بُھول کرمیری وفاؤں کو جفا دینے لگے
یوں تمھاری یاد نے فُرقت کا عادی کردِیا
ہجرکےغم بھی بالآخر اب مزہ دینے لگے
کیا یہ تجدِیدِ محبّت ہی عِلاجِ دِل بھی...
غزل
بڑھی جو حد سے تو سارے طلِسم توڑ گئی
وہ خوش دِلی ، جو دِلوں کو دِلوں سے جوڑ گئی
ابد کی راہ پہ بے خواب دھڑکنوں کی دھمک
جو سو گئے اُنھیں بُجھتے جگوں میں چھوڑ گئی
یہ زندگی کی لگن ہے، کہ رتجگوں کی ترنگ !
جو جاگتے تھے اُنہی کو یہ دھن جھنجوڑ گئی
وہ ایک ٹیس، جسے تیرا نام یاد رہا
کبھی کبھی...
غزل
قُربان علی بیگ سالؔک
اِنتہا صبر آزمائی کی
ہے درازی شَبِ جُدائی کی
ہے بُرائی نصیب کی، کہ مجھے!
تم سے اُمِّید ہے بَھلائی کی
نقش ہے سنگِ آستاں پہ تِرے
داستاں اپنی جبہَ سائی کی
ہے فُغاں بعد امتحانِ فُغاں
پِھر شِکایت ہے نارَسائی کی
کیا نہ کرتا وصال شادی مرگ
تم نے کیوں مجھ سے بیوفائی کی
راز...
غزل
شفیق خلؔش
گو ضرُورت پر تِری ، دَر پر جہاں موجُود تھا
چاہنے والا کوئی، ہم سا کہاں موجُود تھا
دِل کی حالت تھی نہ پنہاں، کُچھ عیاں موجُود تھا
جَل بُجھے عرصہ ہُوئے پر بھی دُھواں موجُود تھا
کیا نہ کُچھ میری سہُولت کو ، وہاں موجُود تھا
دِل دَھڑَکنے کا سَبَب لیکن کہاں موجُود تھا...
غزل
اعتبار ساؔجد
مِلیں پھر آکے اِسی موڑ پر، دُعا کرنا
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر، دُعا کرنا
دیارِ خواب کی گلیوں کا، جو بھی نقشہ ہو!
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر، دُعا کرنا
چراغ جاں پہ ، اِس آندھی میں خیریت گُزرے
کوئی اُمید نہیں ہے، مگر دُعا کرنا
تمہارے بعد مِرے زخمِ نارَسائی کو
نہ ہو نصِیب کوئی...