غزل
مِسمار کرنے آئی مِری راحتوں کے خواب
تعبیر وسوَسے لئے سب چاہتوں کے خواب
دِل کے یقینِ وصل کو پُختہ کریں کُچھ اور
ہرشب ہی ولوَلوں سے بھرے ہمّتوں کے خواب
پَژمُردہ دِل تُلا ہے مِٹانے کو ذہن سے
اچّھی بُری سبھی وہ تِری عادتوں کے خواب
کیسے کریں کنارا، کہ پیشِ نظر رہیں
تکمیلِ آرزُو سے جُڑے...
سِراؔج اورنگ آبادی
جاناں پہ جی نثار ہُوا، کیا بَجا ہُوا
اُس راہ میں غُبار ہُوا کیا بَجا ہُوا
مُدّت سے رازِ عِشق مِرے پر عیاں نہ تھا
یہ بَھید آشکار ہُوا، کیا بَجا ہُوا
تازے کِھلے ہیں داغ کے گُل، دِل کے باغ میں !
پِھر موسمِ بہار ہُوا، کیا بَجا ہُوا
دِل تجھ پری کی آگ میں سِیماب کی مثال
آخر کو...
ہر چند مِری قوتِ گُفتار ہے محبُوس
خاموش مگر طبعِ خود آرا نہیں ہوتی
معمورۂ احساس میں ہے حشر سا برپا
انسان کی تذلِیل گوارا نہیں ہوتی
نالاں ہُوں میں بیداریِ احساس کے ہاتھوں
دُنیا مِرے افکار کی دُنیا نہیں ہوتی
بیگانہ صِفت جادۂ منزِل سے گُزر جا
ہر چیز سزاوارِ نظارا نہیں ہوتی
فطرت کی مشیّت...
غزل
کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے
ہُوا جاں بَلب بلآخر تِرا انتظار کرتے
یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے
وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے
بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو
کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے
اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ بدیس آ کے اُس...
غزل
شیخ غلام ہمدانی مصحفؔی
شب گھر سے جو سیٹی کی وہ آواز پہ نِکلا
نِکلا تو وہ، لیکن عجب انداز پہ نِکلا
مانی نے قلمداں میں رکھا خامۂ مُو کو
خط جب سے تِرے لعلِ فسُوں ساز پہ نِکلا
دِل مجلسِ خُوباں میں جو گُم رات ہُوا تھا
صد شُکر اُسی محرمِ ہمراز پہ نِکلا
سو حُسن کی تصوِیریں لِکھیں کلکِ قضا...
غزل
شفیق خلؔش
دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ
جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن جاؤ
ہو مِثالوں میں نہ جو حُسنِ عجب بن جاؤ
کِس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ
آ بسو دِل کی طرح، گھر میں بھی اے خوش اِلحان !
زندگی بھر کو مِری سازِ طرب بن جاؤ
رشک قسمت پہ مِری سارے زمانے کو رہے
ہمسفرتم...
غزل
سِراؔج اورنگ آبادی
میرے جِگر کے درد کا چاراکب آئے گا
یک بار ہوگیا ہے، دوبارا کب آئے گا
پُتلی ، ہمارے نیں کے جھروکے میں بیٹھ کر !
بیکل ہو جھانکتی ہے، پیارا کب آئے گا
اُس مُشتری جبِیں کا مجھے غم ہُوا زُحل
طالع مِرے کا نیک سِتارا کب آئے گا
مُرجھا رہی ہے دِل کی کلی غم کی دُھوپ...
غزل
میکدے میں آج اِک دُنیا کو اِذنِ عام تھا
دَورِ جامِ بے خودی بے گانۂ ایّام تھا
رُوح لرازاں، آنکھ محوِ دِید، دِل ناکام تھا
عِشق کا آغاز بھی شائستۂ انجام تھا
رفتہ رفتہ عِشق کو تصویرِ غم کر ہی دِیا
حُسن بھی کتنا خرابِ گردشِ ایّام تھا
غم کدے میں دہر کے یُوں تو اندھیرا تھا، مگر
عِشق کا...
غزل
سِراؔج اورنگ آبادی
جس کو مزا لگا ہے تِرے لب کی بات کا
ہرگز نہیں ہے ذَوق اُسے پِھر نبات کا
دیکھے سے اُن لبوں کے جسے عُمرِ خضر ہے
پیاسا نہیں ہے چشمۂ آبِ حیات کا
اے شوخ! بزمِ ہجر میں روشن ہے شمعِ آہ
قصّہ نہ پُوچھ مجھ سے جُدائی کی رات کا
یا رب! طلب ہے داغِ محبّت کی مُہر کی
مُدّت سے...
غزل
اِک خواب ِ دل آویز کی نِسبت سے مِلا کیا
جُز دَربَدَرِی، اُس دَرِ دَولت سے مِلا کیا
آشوبِ فراغت! تِرے مُجرم ، تِرے مجبوُر
کہہ بھی نہیں سکتے کہ فراغت سے مِلا کیا
اِک نغمہ کہ خود اپنے ہی آہنگ سے محجوب
اِک عُمر کہ پِندار ِ سماعت سے مِلا کیا
اِک نقش کہ خود اپنے ہی رنگوں...
غزل
کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس
ایک بستی میں کسی شہرِ خوش آثار کے پاس
دِن نِکلتا ہے، تو لگتا ہے کہ جیسے سورج
صُبحِ روشن کی امانت ہو شبِ تار کے پاس
دیکھیے کُھلتے ہیں کب، انفس و آفاق کے بھید
ہم بھی جاتے تو ہیں اِک صاحبِ اَسرار کے پاس
خلقتِ شہر کو مُژدہ ہو کہ، اِس عہد...
غزل
شفیق خلؔش
نظرسے جواُس کی نظر مِل گئی ہے
محبّت کو جیسے اثر مِل گئی ہے
سرِشام وہ بام پر آئے ، شاید !
ہم آئے گلی میں خبر مِل گئی ہے
مزید اب خوشی زندگی میں نہیں ہے
تھی قسمت میں جومُختصرمِل گئی ہے
گِلہ کیوں کریں ہم مِلی بے کلی کا
توسُّط سے اُس کے اگرمِل گئی ہے
ہَمہ وقت طاری جو رہتی...
غزل
خواجہ حیدر علی آتؔش
آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
چہرۂ شاہدِ مقصُود عیاں ہے کہ جو تھا
عِشقِ گُل میں وہی بُلبُل کا فُغاں ہے کہ جو تھا
پرتَوِ مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا
عالَمِ حُسن ِخُداداد ِبُتاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز بَلائے دِل و جاں ہے کہ جو تھا
راہ میں تیری شب و روز بَسر...
غزل
مُحسنؔ نقوی
شاخ ِ مِژگانِ محبّت پہ سجا لے مجھ کو
برگِ آوارہ ہُوں، صرصر سے بچا لے مجھ کو
رات بھر چاند کی ٹھنڈک میں سُلگتا ہے بدن
کوئی تنہائی کے دوزخ سے نکِالے مجھ کو
مَیں تِری آنکھ سے ڈھلکا ہُوا اِک آنسو ہُوں
تو اگر چاہے، بِکھرنے سے بچا لے مجھ کو
شب غنیمت تھی ، کہ یہ زخم نظارہ تو نہ...
غزل
غم تِراجَلوَہ دَہِ کون و مکاں ہے، کہ جو تھا
یعنی اِنسان وہی شُعلہ بجاں ہے، کہ جو تھا
پھر وہی رنگِ تکلّم نگِہہ ناز میں ہے
وہی انداز، وہی حُسنِ بیاں ہے کہ جو تھا
کب ہے اِنکار تِرے لُطف وکَرَم سے، لیکن!
تووہی دُشمنِ دِل، دُشمنِ جاں ہے، کہ جو تھا
عِشقِ افسُردہ نہیں آج بھی افسُر دہ بہت ...
غزل
بنے بنائے ہُوئے راستوں پہ جانکلے
یہ ہم سفر مِرے ،کتنے گُریز پا نکلے
چلے تھے اور کسی راستے کی دُھن میں، مگر
ہم اِتّفاق سے، تیری گلی میں آ نکلے
غمِ فراق میںکُچھ دیر رو ہی لینے دو
بُخار کُچھ تو ، دلِ بے قرار کا نکلے
نصیحتیں ہَمَیںکرتے ہیں ترکِ اُلفت کی
یہ خیر خواہ ہمارے کِدھر سے آنکلے...
غزل
باغِ عالَم میں رہے شادی و ماتم کی طرح
پُھول کی طرح ہنسے ، رَو دِیئے شبنم کی طرح
شِکوہ کرتے ہو ،خوشی تم سے منائی نہ گئی
ہم سے غم بھی تو منایا نہ گیا غم کی طرح
روز محِفل سے اُٹھاتے ہو تو دِل دُکھتا ہے !
اب نکلواؤ تو پھر حضرتِ آدم کی طرح
لاکھ ہم رِند سہی حضرتِ واعظ ، لیکن
آج تک ہم نے نہ...
غزل
طوُر تھا، کعبہ تھا، دِل تھا ، جلوہ زارِ یار تھا
عِشق سب کچھ تھا مگر پھر عالَمِ اسرار تھا
نشۂ صد جام کیفِ انتظارِ یار تھا
ہجر میں ٹھہرا ہُوا دِل ساغرِ سرشار تھا
دِل دُکھے روئے ہیں شاید اِس جگہ، اے کوئے دوست!
خاک کا اِتنا چمک جانا ذرا دُشوار تھا
الوِداع اے بزمِ انجم، ہجر کی شب الفراق...
غزل
مِیر تقی مِیؔر
دیکھی تھی تیرے کان کے موتی کی اِک جھلک
جاتی نہیں ہے اشک کی رُخسار کے ڈھلک
یارب اِک اِشتیاق نِکلتا ہے چال سے
ملتے پھریں ہیں خاک میں کِس کے لیے فلک
طاقت ہو جس کے دل میں، وہ دو چار دن رہے!
ہم ناتوانِ عشق تمھارے، کہاں تلک
برسوں ہُوئے، کہ جان سے جاتی نہیں خلش
ٹک ہل گئی تھی...
غزل
شفیق خلؔش
خاک بے خوابی کو تھپک دیکھوں
غم کی ہر اُور سے لپک دیکھوں
خُونِ دِل سا ہی اب ٹپک دیکھوں
سیلِ غم میں وہی چَپَک دیکھوں
اب بھی سینے میں تیری یاد سے وہ
شُعلۂ عِشق کی لپک دیکھوں
ہے توقُّف بھی اِنتظار میں کُچھ
کاش پلکیں ذرا جھپک دیکھوں
اُلفت اِس دِل میں وہ ہُوئی یُوں خلش...