فراق فراق گورکھپوری :::::: غم تِراجَلوَہ دَہِ کون و مکاں ہے، کہ جو تھا :::::: Firaq Gorakhpuri

طارق شاہ

محفلین



غزل
غم تِراجَلوَہ دَہِ کون و مکاں ہے، کہ جو تھا
یعنی اِنسان وہی شُعلہ بجاں ہے، کہ جو تھا


پھر وہی رنگِ تکلّم نگِہہ ناز میں ہے
وہی انداز، وہی حُسنِ بیاں ہے کہ جو تھا


کب ہے اِنکار تِرے لُطف وکَرَم سے، لیکن!
تووہی دُشمنِ دِل، دُشمنِ جاں ہے، کہ جو تھا


عِشقِ افسُردہ نہیں آج بھی افسُر دہ بہت !
وہی کم کم اَثَر ِسوزِ نہاں ہے ، کہ جو تھا


قُرب ہی کم ہے، نہ دُوری ہی زیادہ ، لیکن!
آج وہ ربط کااحساس کہاں ہے کہ جو تھا


نظر آجاتے ہیں تم کوتوبہت نازُک بال
دل مِرا کیا وہی، اے شیشہ گراں! ہے، کہ جو تھا؟


جان دے بیٹھے تھے اِک بار ہَوَس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سُودوزِیاں ہے، کہ جو تھا


حُسن کو کھینچ تولیتاہے ابھی تک، لیکن
وہ اثر جذبِ محبّت میں کہاں ہے کہ جو تھا


آج بھی صید گہہ عِشق میں حُسنِ سفّاک
لئے ابرُو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا


آج بھی کاوشِ پنہاں ہے محبّت کی وہی
نشتراِک آج بھی رگ رگ میں رَواں ہے کہ جو تھا


پھر تِری چشم ِ سُخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی جادُو ہے، وہی حُسنِ بیاں ہے کہ جو تھا


پھر سَرِمیکدۂ عِشق ہے اِک بارشِ نُور
چَھلکے جاموں سے چراغاں کا سماں ہے کہ جو تھا


پھر وہی خِیرہ نِگاہی ہے تِرے جلوؤں سے
وہی عالَم تِرااے برق دماں! ہے کہ جو تھا


آج بھی آگ دبی ہے دِلِ اِنساں میں فِراقؔ
آج بھی سِینوں سے اُٹھتا وہ دُھوں ہے کہ جو تھا


فراؔق گورکھپوری
(رگھوپتی سہائے)


فراق - فِراق گورکھپُوری ::::: آج بھی قافلۂ عِشق رَواں ہے کہ جو تھا ::::: Firaq Gorakhpuri
(شاید دو غزلہ یا دو غزل کے اشعار اِن میں عدم ترتیب کا شکار ہیں )
 
Top