سراج اورنگ آبادی :::::: جس کو مزا لگا ہے تِرے لب کی بات کا :::::: Siraj Aurangabadi

طارق شاہ

محفلین
غزل
سِراؔج اورنگ آبادی

جس کو مزا لگا ہے تِرے لب کی بات کا
ہرگز نہیں ہے ذَوق اُسے پِھر نبات کا

دیکھے سے اُن لبوں کے جسے عُمرِ خضر ہے
پیاسا نہیں ہے چشمۂ آبِ حیات کا

اے شوخ! بزمِ ہجر میں روشن ہے شمعِ آہ
قصّہ نہ پُوچھ مجھ سے جُدائی کی رات کا

یا رب! طلب ہے داغِ محبّت کی مُہر کی
مُدّت سے کام بند ہے دِل کی برات کا

جو ہے شہیدِیار، وہ ہے زندۂ مُدام
ہر زخم رُوح بخش ہے ظالم کی ہات کا

آبِ رَواں ہے حاصِلِ عُمرِ شتاب رَو
لَوحِ فنا میں نقش نہیں ہے ثبات کا

اے بُت پرست! دیدۂ بینا سے دیکھ تو!
اِک ذات میں ظہوُر بہت سی صِفات کا

میرے بغل میں خواہشِ دُنیا کا بُت نہیں
کُچلا ہے میں نے لات سے سر اُس منات کا

رُخسارِ یار حلقۂ کاکُل میں ہے عیاں
یا چاند ہے سراؔج اَماوَس کی رات کا

سِراؔج اورنگ آبادی
 
Top