شفیق خلش :::::: گو ضرُورت پر تِری ، دَر پر جہاں موجود تھا :::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

proxy.php

غزل
شفیق خلؔش

گو ضرُورت پر تِری ، دَر پر جہاں موجُود تھا
چاہنے والا کوئی، ہم سا کہاں موجُود تھا

دِل کی حالت تھی نہ پنہاں، کُچھ عیاں موجُود تھا
جَل بُجھے عرصہ ہُوئے پر بھی دُھواں موجُود تھا

کیا نہ کُچھ میری سہُولت کو ، وہاں موجُود تھا
دِل دَھڑَکنے کا سَبَب لیکن کہاں موجُود تھا

کہکشاں سی یاد کی پیشِ نظر تھی رات بھر
ذہن و دِل کو خوش سفر کا، کارواں موجُود تھا

کب تھی، اپنے مُنہ مِیاں مِٹّھو کی بھی حاجَت ہَمَیں
قصّہ خوانی کو ہماری ، اِک جہاں موجُود تھا

مُخلصی اور دوستی پر شک ہَمَیں تب ہی ہُوا
وقتِ رُخصت ، جب رہا نہ رازداں موجُود تھا

وُسعتِ کون و مکاں میں کِس مقام اِس سے فرار
میں گیا جِس جِس جگہ، غم بھی وہاں موجُود تھا

خوش گُمانی تک نہ پائی، کیا کہَیں اپنی خَلِش
ہر زمانہ ہی مُقابل، اِک جہاں موجُود تھا

عِشق کی شُہرت تھی لائی کھینچ کر جمِّ غفِیر
شہر بھر، سُننے ہماری داستاں موجُود تھا

زندگی بھر، وصل کی اُمِّید سے جھَٹکا نہ ہاتھ
دِل وہ سینے میں ہمارے خوش گُماں موجُود تھا

کیا کہَیں تم سے خَلِؔش! اُس الوِداعی شام کی
وہ بھی آنکھوں میں لئے اشکِ رَواں موجُود تھا

شفیق خَلِؔش




 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
proxy.php

غزل
شفیق خلؔش

گو ضرُورت پر تِری ، دَر پر جہاں موجُود تھا
چاہنے والا کوئی، ہم سا کہاں موجُود تھا

دِل کی حالت تھی نہ پنہاں، کُچھ عیاں موجُود تھا
جَل بُجھے عرصہ ہُوئے پر بھی دُھواں موجُود تھا

کیا نہ کُچھ میری سہُولت کو ، وہاں موجُود تھا
دِل دَھڑَکنے کا سَبَب لیکن کہاں موجُود تھا

کہکشاں سی یاد کی پیشِ نظر تھی رات بھر
ذہن و دِل کو خوش سفر کا، کارواں موجُود تھا

کب تھی، اپنے مُنہ مِیاں مِٹّھو کی بھی حاجَت ہَمَیں
قصّہ خوانی کو ہماری ، اِک جہاں موجُود تھا

مُخلصی اور دوستی پر شک ہَمَیں تب ہی ہُوا
وقتِ رُخصت ، جب ہمارا رازداں موجُود تھا

وُسعتِ کون و مکاں میں کِس مقام اِس سے فرار
میں گیا جِس جِس جگہ، غم بھی وہاں موجُود تھا

خوش گُمانی تک نہ پائی، کیا کہَیں اپنی خَلِش
ہر زمانہ ہی مُقابل، اِک جہاں موجُود تھا

عِشق کی شُہرت تھی لائی کھینچ کر جمِّ غفِیر
شہر بھر، سُننے ہماری داستاں موجُود تھا

زندگی بھر، وصل کی اُمِّید سے جھَٹکا نہ ہاتھ
دِل وہ سینے میں ہمارے خوش گُماں موجُود تھا

کیا کہَیں تم سے خَلِؔش! اُس الوِداعی شام کی
وہ بھی آنکھوں میں لئے اشکِ رَواں موجُود تھا

شفیق خَلِؔش
 
آخری تدوین:
Top