غزلِ
احسن اللہ خان بیاؔں
۔
کیا بے طرح ہُوئی تِری دُوری میں شام آج
مرنے کے پھر نہیں، نہ ہُوئے جو تمام آج
تُو بزم سے اُٹھا، کہ ہُوئی تلخ مے کشی !
میں سچ کہوُں، شراب کو سمجھا حَرام آج
غم جس کے پاس ہے، وہ فلاطُوں سے کم نہیں
جمشید ہے وہ جس کو میسّر ہے جام آج
اُس زُلف میں ہو گر، سَرِ مُو...
غزل
اے خوفِ مرگ ! دِل میں جو اِنساں کے تُو رَہے
پِھر کُچھ ہَوس رہے، نہ کوئی آرزُو رَہے
فِتنہ رَہے، فساد رَہے، گُفتگُو رَہے
منظُور سب مجھے، جو مِرے گھر میں تُو رَہے
زُلفیں ہٹانی چہرۂ رنگیں سے کیا ضرُور
بہتر ہے مُشک کی گُلِ عارض میں بُو رَہے
اب تک تِرے سبب سے رَہے ہم بَلا نصیب
اب تابہ حشر گور...
غزل
لگی ذرا نہ طبیعت بَہِشت میں اپنی
زمِیں کے دُکھ تھے بہت سرنَوِشت میں اپنی
اندھیرے گھر میں یہی روشنی کا رَوزَن ہے
چُنی ہے آنکھ جو دِیوارِ خِشت میں اپنی
اِنہی سِتاروں سے پُھوٹیں گے تِیرَگی کے شَجر
جو آسمان نے بَوئے ہیں کشت میں اپنی
اِسی لِئے تو پڑی اپنے پاؤں میں زنجیر
کہ سرکشی تھی...
آگہی
تم نے تو کہا تھا ہر حقیقت
اِک خوابِ ابد ہے در حقیقت
رنگوں کے سراب سے گُزر کر
رعنائیِ خواب سے گُزر کر
نیرنگئ زیست سب فسانہ
کیا گردِشِ وقت، کیا زمانہ
تاروں بھرے آسماں کے نیچے!
کُھلتے نہیں نُور کے دَرِیچے
تارِیک ہے زندگی کا رستا
گہرے ہوں ہزار غم کے سائے
چلتے رہو یُونہی چشم بَستہ
اِک یاد...
جوؔش ملیح آبادی
مناظرِ سَحَر
کیا رُوح فزا جلوۂ رُخسارِ سَحر ہے
کشمیر دلِ زار ہے، فِردَوس نظر ہے
ہر پُھول کا چہرہ عَرَقِ حُسن سے تر ہے
ہر چیز میں اِک بات ہے، ہر شے میں اَثر ہے
ہر سمت بَھڑکتا ہے رُخِ حُور کا شُعلہ
ہر ذرّۂ ناچِیز میں ہے طُور کا شُعلہ
لرزِش وہ سِتاروں کی، وہ ذرّوں کا تبسّم...
غزل
دِل میں، اب طاقت کہاں خُوننابہ افشانی کرے
ورنہ ،غم وہ زہر ہے، پتّھر کو بھی پانی کرے
عقل وہ ناصح، کہ ہر دَم لغزِشِ پا کا خیال
دِل وہ دِیوانہ، یہی چاہےکہ نادانی کرے
ہاں مجھے بھی ہو گِلہ بے مہریِ حالات کا
تُجھ کو آزردہ اگر میری پریشانی کرے
یہ تو اِک شہرِ جنُوں ہے چاک دامانو، یہاں
سب...
غزل
تھی نہ قسمت میں مِری ،ذات وہ ہرجائی کی
ایک نسبت تھی بلا وجہ کی رُسوائی کی
راہیں مسدُود رہیں اُن سے شَناسائی کی
دِل کی دِل ہی میں رہی ساری تمنائی کی
باعثِ فخر ، یُوں نسبت رہی رُسوائی کی
تہمتوں کی بھی ، دِل و جاں سے پزِیرائی کی
کوشِشیں دَر کی، کبھی کام نہ آنے دیں گی!
وُسعتیں دشت سی...
غزل
یہ طبِیعت ہے، تو خود آزار بن جائیں گے ہم !
چارہ گر رَوئیں گے، اور غم خوار بن جائیں گے ہم
ہم سَرِ چاک وفا ہیں اور تِرا دستِ ہُنر
جو بنا دے گا ہَمَیں اے یار! بن جائیں گے ہم
کیا خبر تھی اے نِگارِشعر! تیرے عِشق میں
دِلبرانِ شہر کے دِلدار بن جائیں گے ہم
سخت جاں ہیں، پر ہماری اُستواری پر نہ جا...
غزل
نسلِ اِنساں میں محبّت کی کمی آج بھی ہے !
اور ازل سے جو مِلی کم نَظَرِی آج بھی ہے
جُھکتی ہے اُس کی طرف اب بھی عیارِ انصاف !
وہ کہ ہر جُرم سے پہلے تھا بری آج بھی ہے
یُوں تو پہلے سے نہیں اُس سے مراسم پھر بھی
وہ جو ہم رشتگی پہلے تھی کبھی، آج بھی ہے
جِس نے رکھّا ہے سیہ خانۂ دِل کو روشن
شمع...
غزل
شانِ عطا کو، تیری عطا کی خبر نہ ہو !
یُوں بِھیک دے، کہ دستِ گدا کو خبر نہ ہو
چُپ ہُوں، کہ چُپ کی داد پہ ایمان ہے مِرا
مانگوں دُعا جو میرے خُدا کو خبر نہ ہو
کر شوق سے شِکایتِ محرُومئ وَفا
لیکن مِرے غرُورِ وَفا کو خبر نہ ہو
اِک رَوز اِس طرح بھی مِرے بازوؤں میں آ
میرے ادب کو، تیری...
غزل
جاوؔید لکھنوی
جُھوٹی تسلّیوں پہ شبِ غم بَسر ہُوئی
اُٹّھی چمک جو زخم میں سمجھا سَحر ہُوئی
ہر ہر نَفَس چُھری ہے لئے قطعِ شامِ ہجر
یا آج دَم نِکل ہی گیا، یا سَحر ہُوئی
بدلِیں جو کروَٹیں تو زمانہ بدل گیا
دُنیا تھی بے ثبات، اِدھر کی اُدھر ہُوئی
جاتی ہے روشنی، مِری آنکھوں کو چھوڑ کے
تارے...
غزل
نہ مَیں دِل کو اب ہر مکاں بیچتا ہُوں
کوئی خوب رَو لے تو ہاں بیچتا ہُوں
وہ مَے جس کو سب بیچتے ہیں چُھپا کر
میں اُس مَے کو یارو ! عیاں بیچتا ہُوں
یہ دِل، جس کو کہتے ہیں عرشِ الٰہی
سو اِس دِل کو یارو! میں یاں بیچتا ہُوں
ذرا میری ہّمت تو دیکھو عَزِیزو !
کہاں کی ہے جِنس اور کہاں بیچتا ہُوں...
غزل
آپ سے شرح ِآرزُو تو کریں
آپ تکلیف ِگفتگو تو کریں
وہ نہیں ہیں جو، وہ کہیں بھی نہیں
آئیے دِل میں جُستجُو تو کریں
اہلِ دُنیا مجھے سمجھ لیں گے
دِل کسی دِن ذرا لہُو تو کریں
رنگ و بُو کیا ہے ،یہ تو سمجھا دو
سیرِدُنیائے رنگ و بُو تو کریں
وہ اُدھر رُخ اِدھر ہے میّت کا
لوگ فانؔی کو قِبلہ رُو تو...
غزل
تُو اپنے دِل سے غیر کی اُلفت نہ کھوسکا
مَیں چاہُوں اور کو تو یہ مُجھ سے نہ ہوسکا
رکھتا ہُوں ایسے طالعِ بیدار مَیں، کہ رات !
ہمسایہ، میرے نالَوں کی دَولت نہ سو سکا
گو، نالہ نارَسا ہو، نہ ہو آہ میں اثر !
مَیں نے تو دَرگُزر نہ کی، جو مُجھ سے ہو سکا
دشتِ عَدَم میں جا کے نِکالُوں گا جی کا غم...
غزل
نہ وہ مِلتا ہے نہ مِلنے کا اِشارہ کوئی
کیسے اُمّید کا چمکے گا سِتارہ کوئی
حد سے زیادہ، نہ کسی سے بھی محبّت کرنا
جان لیتا ہے سدا ، جان سے پیارا کوئی
بیوفائی کے سِتم تم کو سمجھ آجاتے
کاش ! تم جیسا اگر ہوتا تمھارا کوئی
چاند نے جاگتے رہنے کا سبب پُوچھا ہے
کیا کہَیں ٹُوٹ گیا خواب ہمارا...
غزل
متاعِ قلب و جگِر ہیں، ہَمَیں کہیں سے مِلَیں
مگر وہ زخم ،جو اُس دستِ شبنَمِیں سے مِلَیں
نہ شام ہے، نہ گھنی رات ہے، نہ پچھلا پہر!
عجیب رنگ تِری چشمِ سُرمگیں سے مِلَیں
میں اِس وِصال کے لمحے کا نام کیا رکھّوں
تِرے لباس کی شِکنیں، تِری جَبِیں سے مِلَیں
ستائشیں مِرے احباب کی نوازِش ہیں
مگر...
غزل
دِلِ زخمی سےخُوں، اے ہمنشِیں! کُچھ کم نہیں نِکلا
تڑپنا تھا، مگر قسمت میں لِکھّا دَم نہیں نِکلا
ہمیشہ زخمِ دِل پر ، زہر ہی چھڑکا خیالوں نے !
کبھی اِن ہمدموں کی جیب سے مرہم نہیں نِکلا
ہمارا بھی کوئی ہمدرد ہے، اِس وقت دُنیا میں
پُکارا ہر طرف، مُنہ سے کسی کی ہم نہیں نِکلا
تجسُّس کی نظر...
غزل
تابِ لب حوصلہ وَروں سے گئی
خُوئے پُرسِش بھی، خود سروں سے گئی
کب سے لو تھی شُعاع ِ مہر اُترے
آخر اِک جُوئے خُوں سروں سے گئی
بنی ایذا ہی چارۂ ایذا
زخم کی آگ نشتروں سے گئی
شرمِ مِنقار، تشنگی کیا تھی
تشنگی وہ تھی جو پروں سے گئی
چھاؤں کیا دی نئی فصیلوں نے!
آشنا دُھوپ بھی گھروں سے گئی...
غزل
وفا بیگانۂ رسمِ بیاں ہے
خموشی اہلِ دِل کی داستاں ہے
مِرا دِل ہے کسی کی یاد کا نام
محبّت میری ہستی کا نِشاں ہے
تماشا چاہیے تابِ نظر دے
نگاہِ شوق ہےاور رائیگاں ہے
مُسلّم پُرسِشِ بیمار، لیکن !
وہ شانِ چارہ فرمائی کہاں ہے
تِرا نقشِ قدم ہے ذرّہ ذرّہ
زمِیں کہتے ہیں جس کو، آسماں ہے
بچے گی...
غزل
دشت میں پُہنچے، نہ گھر میں آئے!
کِن بَلاؤں کے اثر میں آئے
قہر آندھی کا ہُوا ہے نازِل
پُھول، پھل پِھر بھی شجر میں آئے
کب سے بے عکس ہے آئینہ چشم!
کوئی تصوِیر نظر میں آئے
کِتنی حسرت تھی ،کہ سیّاح کوئی
دِل کےاِس اُجڑے نگر میں آئے
قافلہ دِل کا ، کہیں تو ٹھہرے
کوئی منزِل تو سفر میں آئے...