سُنیو جب وہ کبھو سَوار ہُوا
تا بہ رُوح الامیں شکِار ہُوا
اُس فریب بندہ کو نہ سمجھے آہ !
ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہُوا
نالہ ہم خاکساروں کا آخر!
خاطرِعرش کا غُبار ہُوا
مَر چَلے بے قرار ہو کر ہم
اب تو تیرے تئیں قرار ہُوا
وہ جو خنجر بَکف نظر آیا
مِیؔر سو جان سے نِثار ہُوا
مِیر تقی مِیؔر
چھوٹی رات، سفر لمبا تھا
میں اِک بستی میں اُترا تھا
سُرماندی کے گھاٹ پہ اُس دن
جاڑے کا پہلا میلا تھا
بارہ سکھیوں کا اِک جُھرمٹ
سیج پہ چکّر کاٹ رہا تھا
نئی نکور کنواری کلیاں
کورا بدن کورا چولا تھا
دیکھ کے جوبن کی پُھلواری
چاند گگن پر شرماتا تھا
پیٹ کی ہری بھری کیاری میں
سُرخ مُکھی کا...
یادوں سے سیلِ غم کو ہیں آنکھوں میں روکے ہم
کب بھُولے، زندگی سے محبّت کے بوسے ہم
دیکھیں برستی آگ لبِ نغمہ گو سے ہم
حیراں ہیں گفتگو کو مِلی طرزِ نَو سے ہم
سب دوست، آشنا جو تھے تاتاری بن گئے
آئے وطن، تو بیٹھے ہیں محبوس ہوکے ہم
اپنی روایتوں کا ہَمَیں پاس کب رہا !
کرتے شُمار خود کو ہیں اِس...
غزل
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی کیا گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کُچھ نہیں پھر بھی
اُونچا اُونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبّت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا...
غزل
آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم
حالت خراب دِل کی گو کرتے کہیں ہیں کم
دِل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں
آنکھوں کو اپنی شرم سے کرتے نہیں ہیں نم
ایسا بُجھادِیا ہَمَیں فُرقت کی دُھوپ نے
کوشِش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم
اِک پَل نہ ہوں گوارہ کسی طور یُوں ہَمَیں
دِل پر سوار ہو کے...
غزل
خوار و رُسوا تھے یہاں اہلِ سُخن پہلے بھی
ایسا ہی کُچھ تھا زمانے کا چلن ، پہلے بھی
مُدّتوں بعد تجھے دیکھ کے یاد آتا ہے
مَیں نے سِیکھا تھا لہُو رونے کا فن پہلے بھی
ہم نے بھی پایا یہاں خِلعَتِ سنگ و دُشنام
وضعدار ایسے ہی تھے اہلِ وطن پہلے بھی
دِلنواز آج بھی ہے نِیم نِگاہی تیری
دِل شکن...
غزل
تیرِ نظر چلاتے ہُوئے مُسکرا بھی دے
آمادہ قتل پر ہے تو، بجلی گِرا بھی دے
رُخ سے نقاب اُٹھا کے ، کرِشمہ دِکھا بھی دے
سُورج کو چاند، چاند کو سُورج بَنا بھی دے
دامن سے آکے مُجھ کو اے قاتِل ہَوا بھی دے
جِس نے کِیا ہے خُون، وہی خُوں بہا بھی دے
منزِل ہے تیری، حدِّ تعیُّن سے ماوراء
دَیر و حَرَم...
غزل
جیسی چاہی تھی مُلاقات نہ ہونے پائی
آج پِھر اُن سے مِری بات نہ ہونے پائی
بِکھرے بِکھرے ہی رہے مجھ میں مِرے خواب و خیال !
مجتمع مجھ سے مِری ذات نہ ہونے پائی
ضبط نے پھوڑے اگرچہ تھے پھپھولے دِل کے
شُکر آنکھوں سے وہ برسات نہ ہونے پائی
سر پہ ہر وقت چمکتا رہا میرے سُورج
دِن گُزرتے گئے اِک رات...
غزل
شرح ِبے دردئ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی، دِل کی مدارات نہ ہونے پائی
پِھر وہی وعدہ، جو اِقرار نہ ہونے پایا !
پِھروہی بات، جو اثبات نہ ہونے پائی
پِھر وہ پروانے جنھیں اذنِ شہادت نہ مِلا
پِھر وہ شمعیں، کہ جنھیں رات نہ ہونے پائی
پِھر وہی جاں بہ لَبی، لذَّتِ مے سے پہلے!
پِھر وہ محفِل، جو...
غزل
جُھوٹے اِقرار سے اِنکار اچھّا
تم سے تو مَیں ہی گُنہگار اچھّا
حبس چَھٹ جائے، دِیا جلتا رَہے!
گھر بس اِتنا ہی ہَوا دار اچھّا
عجز خواری ہے ، نہ ظاہر داری
عجز کو چاہئے معیار اچھّا
یہ عمارت ہے اِسی واسطے خُوب
اِس عمارت کا تھا معمار اچھّا
اب بھی اِک خدمتِ شہ خصلت میں!
شام کو جمتا ہے...
فوری تحفہ
اِس سے پہلے ، کہ ہم زمیں کے ہوں، زمیں ہماری تھی
سو سال سے زیادہ مُدّت تک، وہ ہماری تھی
اِس سے پیشتر، کہ ہم اِس کے باسی بنے، میسا کوٹس اور ورجینیا ، ہمارے تھے
لیکن! ہم انگلستان کے تھے ، نَو آباد تھے
ہمارے پاس وہ تھا جو ابھی ہَمَیں مِلا نہیں تھا
ہمارے پاس متاعِ نایافت کے سِوا کُچھ نہ...
شفیق خلش
غزل
سائے ہیں بادلوں کے وہ، چَھٹتے نہیں ذرا
لا لا کے غم سروں پہ یہ، تھکتے نہیں ذرا
کیسے قرار آئے دلِ بے قرار کو
گھر سے اب اپنے وہ، کہ نکلتے نہیں ذرا
کیا وہ بچھڑگئے، کہ خُدائی بچھڑ گئی
دُکھ اب ہماری ذات کے بٹتے نہیں ذرا
سُوجھے کوئی نہ بات ہَمَیں آپ کے بغیر
موسم تخیّلوں کے بدلتے نہیں...
غزل
چہرۂ وقت سے اُٹّھے گا نہ پردا کب تک
پسِ اِمروز رہے گا، رُخِ فردا کب تک
اُس کی آنکھوں میں نمی ہے، مِرے ہونٹوں پہ ہنسی
میرے اللہ! یہ نیرنگِ تماشا کب تک
یہ تغافُل ، یہ تجاہل ، یہ سِتم ، یہ بیداد
کب تک ، اے خانہ براندازِ تمنّا !کب تک
بن گیا گردشِ دَوراں کا نِشانہ آخر
لشکرِ وقت سے لڑتا دلِ...
غزل
گو دَورِ جام ِبزم میں، تا ختمِ شب رہا !
لیکن، میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا
پروانہ میری طرح مُصِیبت میں کب رہا
بس رات بھر جَلا تِری محِفل میں جب رہا
ساقی کی بزم میں یہ نظامِ ادب رہا !
جس نے اُٹھائی آنکھ، وہی تشنہ لب رہا
سرکار ،پُوچھتے ہیں خفا ہو کے حالِ دل
بندہ نواز میں تو بتانے سے...
غزلِ
شکؔیل خیرآبادی
مہ لِقا ساقی ہے، ہم ہیں، اور دَورِ جام ہے
کُچھ غمِ فردا ، نہ خوفِ گردشِ ایّام ہے
مَے پرستی حق پرستی ہے، یہی اِسلام ہے
بادۂ توحِید سے لبریز دِل کا جام ہے
پھر ہَمَیں شوقِ شہادت لے چلا ہے سر بکف
کوُچۂ قاتِل میں سُنتے ہیں کہ قتلِ عام ہے
رات جو دُشمن کی ہے، وہ رشکِ صُبحِ...
ابھی کُچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں
وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں
نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے
اثر کھو چُکی ہیں سبھی اِلتجائیں
زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں
نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں
مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں
جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں
خَلِشؔ تم زمیں کے، وہ ہیں...
پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح
ترکیب و طرح، ناز و ادا، سب سے دل لگی !
اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح
یوسفؑ کی اِس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ !
ایسی متاع، جاتی ہے بازار ہر طرح
جس طرح مَیں دِکھائی دِیا ،اُس سے لگ پڑے !
ہم کشت و خُوں کے ہیں گے سزاوار ہر...
غزل
رَہِ شوق سے، اب ہَٹا چاہتا ہُوں
کشِش حُسن کی دیکھنا چاہتا ہُوں
کوئی دِل سا درد آشنا چاہتاہُوں
رَہِ عِشق میں رہنُما چاہتا ہُوں
تجھی سے تجھے چِھیننا چاہتا ہُوں
یہ کیا چاہتا ہُوں، یہ کیا چاہتا ہُوں
خطاؤں پہ، جو مجھ کو مائل کرے پھر
سزا ، اور ایسی سزا چاہتا ہُوں
وہ مخمُور نظریں، وہ مدہوش...
غزل
تمھاری، دِل میں محبّت کا یُوں جواب نہیں
کہ اِس سے، ہم پہ مؤثر کوئی عذاب نہیں
ہزاروں پُوجے مگر بُت کوئی نہ ہاتھ آیا
تمام عُمْر عبادت کا اِک ثواب نہیں
اُمیدِ وصْل سے قائم ہیں دھڑکنیں دِل کی
وگرنہ ہجر میں ایسا یہ کم کباب نہیں
سِوائے حُسن کسی شے کی کب اِسے پروا
ہمارے دِل سے بڑا دہرمیں...
غزل
عذابِ زِیست کی سامانیاں نہیں جاتیں
مِری نظر سے وہ رعنائیاں نہیں جاتیں
بچھڑ کے تجھ سے بھی پرچھائیاں نہیں جاتیں
جو تیرے دَم سے تھیں شُنوائیاں، نہیں جاتیں
گو ایک عُمر جُدائی میں ہو گئی ہے بَسَر
خیال وخواب سے انگڑائیاں نہیں جاتیں
مُراد دِل کی بھی کوئی، کہاں سے بھرآئے
جب اِس حیات سے ناکامیاں...