شکیل خیرآبادی:::::: مہ لقا ساقی ہے، ہم ہیں، اور دَورِ جام ہے :::::: Shakeel Khairabadi

طارق شاہ

محفلین

غزلِ
شکؔیل خیرآبادی

مہ لِقا ساقی ہے، ہم ہیں، اور دَورِ جام ہے
کُچھ غمِ فردا ، نہ خوفِ گردشِ ایّام ہے

مَے پرستی حق پرستی ہے، یہی اِسلام ہے
بادۂ توحِید سے لبریز دِل کا جام ہے

پھر ہَمَیں شوقِ شہادت لے چلا ہے سر بکف
کوُچۂ قاتِل میں سُنتے ہیں کہ قتلِ عام ہے

رات جو دُشمن کی ہے، وہ رشکِ صُبحِ عِید ہے
صُبح جس شب کی نہیں، کم بخت میری شام ہے

جُھومتے جاتے ہیں سُوئے کعبہ ہم بہرِطواف!
مےسے آلوُدہ ہمارا جامۂ احرام ہے

آگئی شامِ جوانی، کیجیے توبہ شکؔیل !
بےمحل اب شُغلِ مے، بیکار دَورِ جام ہے

شکؔیل خیرآبادی
(سیّد اِمتیاز حُسین)
خانقاہ حافظیہ خیرآباد ، یوپی-انڈیا

سنِ وصال 1940
 
آخری تدوین:
Top