غزل
قِصّے ہیں خموشی میں نِہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غَمِ دِل کے بَیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کُچھ بات، کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے
اے را ہروِ راہِ وفا ! دیکھ کے چلنا
اِس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جُدائی کا ، نہ ملنے کی تمنّا
دِل کو ہیں مِرے وہم و گُماں...
غزل
زادِ سفر کو چھوڑ کے تنہا نِکل گیا
مَین کیا وطن سے نِکلا کہ کانٹا نِکل گیا
بہتر یہی تھا اپنی ہی چَوکھٹ پہ رَوکتے
اب کیا پُکارتے ہو، کہ جو نِکلا نِکل گیا
ہم چل پڑے کہ منزلِ جاناں قرِیب ہے
سستائے ایک لمحہ کو، رستہ نِکل گیا
کُچھ لوگ تھے جو دشت کو آباد کرگئے
اِک ہم ہیں، جن کے ہاتھ سے صحرا...
غزل
عبدالحلیم شرؔر
کیا سہل سمجھے ہو کہِیں دھبّا چھٹا نہ ہو
ظالم یہ میرا خُون ہے رنگِ حِنا نہ ہو
یا رب! مجھے ہے داغِ تمنّا بہت عزِیز
پہلوُ سے دِل جُدا ہو ،مگر یہ جُدا نہ ہو
راہیں نکالتا ہے یہی سوز و ساز کی !
پہلوُ میں دِل نہ ہو ،تو کوئی حوصلہ نہ ہو
تم اور وفا کرو، یہ نہ مانُوں گا میں کبھی...
غزل
اپنی ناکام تمنّاؤں کا ماتم نہ کرو
تھم گیا دَور ِمئے ناب تو کُچھ غم نہ کرو
اور بھی کتنے طرِیقے ہیں بیانِ غم کے
مُسکراتی ہُوئی آنکھوں کو تو پُر نم نہ کرو
ہاں یہ شمشِیر حوادِث ہو تو کُچھ بات بھی ہے
گردنیں طوقِ غُلامی کے لیے خَم نہ کرو
تم تو ہو رِند تمھیں محفل ِجم سے کیا کام
بزم ِجم ہو گئی...
غزل
آنسوؤں سے دُھلی خوشی کی طرح
رشتے ہوتے ہیں شاعری کی طرح
دُور ہوکر بھی ہُوں اُسی کی طرح
چاند سے دُور چاندنی کی طرح
خوبصورت، اُداس، خوفزدہ
وہ بھی ہے بیسویں صدی کی طرح
جب کبھی بادلوں میں گھِرتا ہے
چاند لگتا ہے آدمی کی طرح
ہم خُدا بن کے آئیں گے ورنہ!
ہم سے مِل جاؤ آدمی کی طرح
سب نظر...
غزل
اچھّا تمھارے شہر کا دستوُر ہو گیا
جِس کو گلے لگا لِیا ، وہ دُور ہو گیا
کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے
دِیوانہ بے پڑھے لِکھے مشہوُر ہو گیا
محلوں میں ہم نے کتنے سِتارے سجا دیئے
لیکن زمِیں سے چاند بہت دُور ہو گیا
تنہائیوں نے توڑ دی ہم دونوں کی انا!
آئینہ بات کرنے پہ مجبوُر ہو گیا...
نظم
اللہ جمیلُ و یحبُ الجمال
(اللہ حَسِین ہے اور حُسن سے محبّت کرتا ہے)
خالقِ حُسنِ کائنات ہے وہ
خالقِ کُلِّ ممکنات ہے وہ
خالقِ کائناتِ حُسن ہی حُسن
اُس کی ذات و صِفات حُسن ہی حُسن
حُسن سے مُنکشف نمودِ خُدا
حُسن ہی حُسن ہے وجودِ خُدا
سر بَسر حُسنِ نُورِ ذات ہے وہ
صاحبِ مظہَرِ صِفات ہے وہ...
غزل
پرتَوِ ساغرِ صہبا کیا تھا
رات اِک حشر سا برپا کیا تھا
کیوں جوانی کی مجھے یاد آئی
میں نے اِک خواب سا دیکھا کیا تھا
حُسن کی آنکھ بھی نمناک ہُوئی
عِشق کو آپ نے سمجھا کیا تھا
عِشق نے آنکھ جُھکا لی، ورنہ
حُُسن اور حُسن کا پردا کیا تھا
کیوں مجازؔ آپ نے ساغر توڑا
آج یہ شہر میں چرچا...
غزل
راہ دُشوار جس قدر ہوگی
جُستُجو اور مُعتبر ہوگی
آدمی آدمی پہ ہنستا ہے
اور کیا ذِلَّتِ بشر ہوگی
پتّھروں پر بھی حرف آئے گا
جب کوئی شاخ بے ثمر ہوگی
جاگ کر بھی نہ لوگ جاگیں گے
زندگی خواب میں بسر ہوگی
حُسن بڑھ جائےگا تکلّم کا
جس قدر بات مُختصر ہوگی
اعجاز رحمانی
غزل
بے اعتناعی کی بڑھتی ہُوئی سی یہ تابی
کہیں نہ جھونک دے ہم کو بجنگِ اعصابی
گئی نظر سے نہ رُخ کی تِری وہ مہتابی
لیے ہُوں وصل کی دِل میں وہ اب بھی بیتابی
مَیں پُھول بن کے اگر بُت سے اِک لِپٹ بھی گیا
زیادہ دِن تو میّسر رہی نہ شادابی
مِری نمُود و نمائش ہے خاک ہی سے ، مگر
سکُھا کے خاک...
غزل
پردے میں ہر آواز کے شامِل تو وہی ہے
ہم لا کھ بدل جائیں، مگر دِل تو وہی ہے
موضوعِ سُخن ہے وہی افسانۂ شِیرِیں !
محِفل ہو کوئی، رَونَقِ محِفل تو وہی ہے
محسُوس جو ہوتا ہے، دِکھائی نہیں دیتا
دِل اور نظر میں حدِ فاصِل تو وہی ہے
ہر چند تِرے لُطف سے محرُوم نہیں ہم
لیکن دلِ بیتاب کی مُشکل تو وہی...
غزل
نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں
بس اُس کی باتوں میں پہلے جو تھی وہ قند نہیں
نظر میں میری ہو خاطر سے کیوں گزند نہیں
خیال و فکر تک اُس کے ذرا بُلند نہیں
کب اپنے خواب و تمنّا میں کامیاب رہے
ہم ایک وہ جو کسی مد میں بہرہ مند نہیں
تمام زیور و پازیب ہم دِلا تو چکے!
ملال پِھر بھی ،کہ...
غزل
نشہ ہے، جہل ہے، شر ہے، اِجارہ داری ہے
ہماری جنگ، کئی مورچوں پہ جاری ہے
سَمیٹ رکّھا ہے جس نے تعیش دُنیا کے
سُکونِ دِل کا تو ، وہ شخص بھی بِھکاری ہے
یہ پُوچھنے کا تو حق ہے سب اہلِ خِدمت کو!
ہمارے دُکھ ہیں، خوشی کیوں نہیں ہماری ہے
اُس اِنتظار کا اب موت تو نہیں ہے جواز
جس اِنتظار میں، اِک...
ہم تو مجبور تھے اُس دِل سے !
ہم تو مجبور تھے اُس دِل سے کہ جس میں ہر دَم
گردِشِ خُوں سے وہ کُہرام بَپا رہتا ہے
جیسے رِندانِ بَلا نَوش جو مِل بیٹھیں بَہم
میکدے میں سفرِِجام بَپا رہتا ہے
سَوزِ خاطِر کو مِلا جب بھی سہارا کوئی
داغِ حرمان کوئی، دردِ تمنّا کوئی
مرہَمِ یاس سے ما ئل بہ شِفا ہونے لگا...
راہ ِحق میں ہُوئے لڑکر ،کبھی مر کر لاکھوں
زندہ جاوید ہر اِک دیس کے گھر گھر لاکھوں
ہو محبّت کے خزانے میں کہاں کُچھ بھی کمی!
چاہے دامن لئےجاتے رہیں بھر بھر لاکھوں
کوچۂ یار کومیلے کا سماں دیتے ہیں
اِک جَھلک دِید کی خواہش لئے دِن بھر لاکھوں
کردے مرکوُز جہاں بَھر کی نِگاہیں خود پر
چاند پِھر...
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ !
کوئی ایسا گھر بھی ہے شہر میں، جہاں ہر مکین ہو مطمئن
کوئی ایسا دن بھی کہیں پہ ہے، جسے خوفِ آمدِ شب نہیں
یہ جو گردبادِ زمان ہے، یہ ازل سے ہے کوئی اب نہیں
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
یہ جو خار ہیں تِرے پاؤں میں، یہ جو زخم ہیں تِرے ہاتھ میں
یہ جو خواب پھرتے ہیں دَر بہ دَر، یہ...
عرشؔی بَھوپالی
غزل
نِگاہِ شوق سے کب تک مُقابلہ کرتے
وہ اِلتفات نہ کرتے تو اور کیا کرتے
یہ رسمِ ترکِ محبّت بھی ہم ادا کرتے !
تِرے بغیر مگر زندگی کو کیا کرتے
غُرور ِحُسن کو مانوُسِ اِلتجا کرتے
وہ ہم نہیں کہ جو خود دارِیاں فنا کرتے
کسی کی یاد نے تڑپا دیا پھر آ کے ہَمَیں
ہُوئی تھی دیر نہ کُچھ،...
غزل
رنگ و رَس کی ہَوَس اور بس
مسئلہ دسترس اور بس
یُوں بُنی ہیں رَگیں جِسم کی
ایک نس، ٹس سے مس اور بس
سب تماشائے کُن ختم شُد
کہہ دیا اُس نے بس اور بس
کیا ہے مابینِ صیّاد و صید
ایک چاکِ قفس اور بس
اُس مصوّر کا ہر شاہکار
ساٹھ پینسٹھ برس اور بس
عمار اقبال
کراچی، پاکستان
غزل
میرے ہر وصل کے دَوران مجھے گُھورتا ہے
اِک نئے ہجر کا اِمکان مجھے گُھورتا ہے
میرے ہاتھوں سے ہیں وابستہ اُمیدیں اُس کی
پُھول گرتے ہیں تو، گُلدان مجھے گُھورتا ہے
آئینے میں تو کوئی اور تماشہ ہی نہیں !
میرے جیسا کوئی اِنسان مجھے گُھورتا ہے
اب تو یُوں ہے کہ گُھٹن بھی نہیں ہوتی مجھ کو
اب...
شان الحق حقی
غزل
اثر نہ ہو، تو اُسی نطقِ بے اثر سے کہہ !
چُھپا نہ درد ِمحبّت ،جہان بَھر سے کہہ
جو کہہ چُکا ہے، تو اندازِ تازہ تر سے کہہ
خبرکی بات ہے اِک، گوشِ بے خبر سے کہہ
چَمَن چَمَن سے اُکھڑ کر رَہے گا پائے خِزاں
رَوِش رَوِش کو جتا دے، شجر شجر سے کہہ
بیانِ شَوق نہیں قِیل و...