غزل
سینہ خُوں سے بھرا ہُوا میرا
اُف یہ بدمست مے کدہ میرا
نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نارَسا میرا
عِشق کو مُنہ دِکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اُڑ گیا میرا
دلِ غم دِیدہ پر خُدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا
یاد کے تُند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جَل اُٹھا میرا
یادِ ماضی عذاب...
غزل
یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو
اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو
ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا !
دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو
تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو
ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اُڑا...
غزل
تاثیر پسِ مرگ دِکھائی ہے وفا نے
جو مجھ پہ ہنسا کرتے تھے، روتے ہیں سرہانے
کیا کہہ دیا چُپ کے سے، نہ معلوُم قضا نے
کروَٹ بھی نہ بدلی تِرے بیمارِ جفا نے
ہستی مِری، کیا جاؤں مَیں اُس بُت کو منانے
وہ ضِد پہ جو آئے تو فَرِشتوں کی نہ مانے
اَوراقِ گُلِ تر، جو کبھی کھولے صبا نے
تحرِیر تھے...
غزل
چند افسانے سے لَوحِ دِل پہ کندہ کرگیا
مصلحت اندیش تھا، رُسوائیوں سے ڈر گیا
کتنی یخ بستہ فِضا ہے، کتنے پتّھر دِل ہیں لوگ
ایک اِک شُعلہ تمنّا کا ، ٹھٹھر کر مر گیا
ذہن میں میرے رَچا ہے اب نئے موسم کا زہر !
سوچ کے پردے سے، رنگوں کا ہر اِک منظر گیا
ایک مُدّت سے کھڑا ہُوں آنکھ کی دہلیز پر...
غزل
جو اَب جہانِ بَرَہنہ کا اِستعارہ ہُوا
مَیں زندگی تِرا اِک پیرَہَن اُتارا ہُوا
سِیاہ خُون ٹپکتا ہے لمحے لمحے سے !
نہ جانے رات پہ شب خُوں ہے کِس نے مارا ہُوا
جکڑ کے سانسوں میں تشہیر ہو رہی ہے مِری
میں ایک قید سپاہی ہُوں جنگ ہارا ہُوا
پھر اُس کے بعد وہ آنسو اُتر گیا دِل میں
ذرا سی دیر...
غزل
کچھ بھی ہو، وہ اب دِل سے جُدا ہو نہیں سکتے
ہم مُجرم ِتوہِین وفا ہو نہیں سکتے
اے موجِ حوادِث ! تجھے معلوُم نہیں کیا
ہم اہلِ محبّت ہیں، فنا ہو نہیں سکتے
اِتنا تو بتا جاؤ، خفا ہونے سے پہلے
وہ کیا کریں جو تم سے خفا ہو نہیں سکتے
اِک آپ کا در ہے مِری دُنیائے عقِیدت
یہ سجدے کہِیں اور ادا ہو...
غزل
جب سب کے دِلوں میں گھر کرے تُو
پِھر کیوں ہَمَیں در بَدر کرے تُو
یہ حال ہے شام سے تو اے دِل!
مُشکِل ہے کہ اب سَحر کرے تُو
آنکھوں میں نِشان تک نہ چھوڑے
خوابوں کی طرح سفر کرے تُو
اِتنا بھی گُریز اہلِ دِل سے
کوئی نہ کرے، مگر کرے تُو
خوشبُو ہو ، کہ نغمہ ہو، کہ تارا
ہر ایک کو، نامہ بر...
غزل.
اِسم تبدیلی سے کیا ہوتا ہے
عیب کب اِس سے چھپا ہوتا ہے
اچھے اوصاف ہوں سب پر ظاہر
جُھوٹ بھی سب پہ کُھلا ہوتا ہے
بات بے بات ہو تقرار جہاں
جہل پہ جہل ڈٹا ہو تا ہے
باز گشت اپنی سماعت پہ گراں
دہنِ جاہل کا رَٹا ہوتا ہے
وہ بھی کیا شخص ہے محِفل میں، خلؔش !
مَیں ہی قابل ، پہ ڈٹا ہوتا ہے...
غزل
کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل
خُونِ دِل سے لِکھی ہے ساری غزل
جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے!
لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل
سالہا سال رنج کھینچے ہیں
مَیں نے شیشے میں جب اُتاری غزل
جب بھی غُربت میں دِل اُداس ہُوا
مَیں تِرے ساتھ ہُوں، پُکاری غزل
دَمِ تخلیق پچھلی راتوں کو
یُوں بھی ہوتی ہے مجھ پہ...
غزل
کبھی کسی سے، کبھی خود سے برسر ِپیکار
مِرا وجُود ہےتفہیمِ جُستجُو کا شِکار
مَیں جِس کی کھَوج میں اِک عُمر سے ہُوں سرگرداں
وہ میرا چاند رہا دُھند میں پَسِ دِیوار
غرُورِ شوق کی مشعل اُٹھا کے نِکلا تھا
ہُوا ہُوں رات کی سنگِنیوں میں تِیرہ فِشار
نجانے کِتنے زمانوں سے ہُوں یہاں محصُور
ہے...
غزل
جو بادشاہ، پُرسِشِ حالِ گدا کرے
اُس پر کبھی زوال نہ آئے خُدا کرے
حاصِل اگر ہو وحدَتِ نَوعِ بَشر کا عِلم
تو پِھر عَدُوئے جاں سے بھی اِنساں وَفا کرے
میرا بُرا جو چاہ رہا ہے، بہر نَفَس
اللہ ہر لِحاظ سے، اُس کا بَھلا کرے
ہم ساکنانِ کُوئے خرابات کی طرح
یارب! کبھی فقِیہ بھی ترکِ رِیا کرے...
غزل
حیران ہُوں خود کو دیکھ کر مَیں
ایسا تو نہیں تھا عمر بھر مَیں
وہ زِندہ دِلی کہاں گئی ہے
ہنستا تھا اپنے حال پر جب مَیں
آدابِ جُنونِ عاشقی سے
ایسا بھی نہیں تھا بے خبر مَیں
واسوخت کبھی نہ مَیں نے لِکھّی
رویا بھی کبھی جو ٹُوٹ کر مَیں
صیّاد پرست جو بھی سمجھیں
زنداں کو سمجھ سکا نہ گھر مَیں...
آس محمد محسن
غزل
مَیں ہُوں حیراں یہ سِلسِلہ کیا ہے
آئنہ مجھ میں ڈُھونڈھتا کیا ہے
خود سے بیتاب ہُوں نکلنے کو
کوئی بتلائے راستہ کیا ہے
میں حبابوں کو دیکھ کر سمجھا
اِبتدا کیا ہے، اِنتہا کیا ہے
میں ہُوں یکجا ،تو پھر مِرے اندر
ایک مُدّت سے ٹُوٹتا کیا ہے
خود ہی تنہائیوں میں چِلّاؤں
خود ہی...
گُل کرو شمعیں!
لفظ خالی ہیں معانی سے پریشاں ہیں خیال
ایک زنجیرِ شکستہ ہیں دماغوں میں سوال
آخرِش خواہشِ پروازسے محرُوم ہُوئی
فکر جو منتظرِ حرفِ اجازت ہی رہی
ہمسفر اپنے رہے صِرف اُمیدوں کے سراب
سوگئے جاگتی آنکھوں میں نئی صُبح کے خواب
خواب شرمندۂ تعبیر بھی ہو سکتے تھے
ہم سِیہ بخت سہی، سُرخ...
غزل
اُداس کر کے دَرِیچے نئے مکانوں کے
سِتارے ڈُوب گئے سبز آسمانوں کے
گئی وہ شب، جو کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھی
ہوائیں لے گئیں اَوراق داستانوں کے
ہر آن برق چمکتی ہے، دِل دھڑکتا ہے
مِری قمیص پہ تِنکے ہیں آشیانوں کے
تِرے سکُوت سے وہ راز بھی ہُوئے افشا
کہ جِن کو کان ترستے تھے راز دانوں کے
یہ بات...
غزل
وسوَسے دِل میں نہ رکھ ، خوف ِرَسَن لے کے نہ چل
عزمِ منزِل ہے تو ، ہمراہ تھکن لے کے نہ چل
راہِ منزل میں بہر حال تبسّم فرما
ہر قدم دُکھ سہی، ماتھے پہ شکن لے کے نہ چل
نُور ہی نُور سے وابستہ اگر رہنا ہے
سر پہ سُورج کو اُٹھا ، صرف کِرن لے کے نہ چل
پہلے فولاد بَنا جِسم کو اپنے، اے دوست ...
غزل.
مُمکن ہے اِلتجا میں ہماری اثر نہ ہو
ایسا نہیں کہ اُس کو ہماری خبر نہ ہو
خاک ایسی زندگی پہ کہ جس میں وہ بُت، مِرے
خواب و خیال میں بھی اگر جلوہ گر نہ ہو
وہ حُسن ہے سوار کُچھ ایسا حواس پر!
خود سے توکیا، اب اوروں سے ذکرِ دِگر نہ ہو
ہو پیش رفت خاک، مُلاقات پر ہی جب!
کھٹکا رہے یہ دِل میں...
غزل
ہمارے ہاتھ تھے سُورج نئے جہانوں کے
سو اب زمِینوں کے ہم ہیں، نہ آسمانوں کے
ہزار گِرد لگا لیں قد آور آئینے
حَسب نَسب بھی تو ہوتے ہیں خاندانوں کے
حرُوف بِیں تو سبھی ہیں، مگر کِسے یہ شعوُر
کِتاب پڑھتی ہے چہرے، کِتاب خوانوں کے
یہ کیا ضرُور کہ ناموں کے ہم مِزاج ہوں لوگ
بہار اور خِزاں نام...
غزل
کُچھ تو ہوکر دُو بَدُو، کُچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دِیا
دِل پہ جو گُذرا تھا ، ہم نے آگے اُس کے کہہ دِیا
باتوں باتوں میں جو ہم نے، دردِ دِل کا بھی کہا !
سُن کے بولا، تُو نے یہ کیا بکتے بکتے کہہ دِیا
اب کہیں کیا اُس سے ہمدم ! دِل لگاتے وقت آہ
تھا جو کُچھ کہنا، سو وہ تو ہم نے پہلے کہہ دِیا
چاہ...
مُلاقات
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اِس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بَکف سِتاروں
کے کارواں گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب اِس کے سائے
میں اپنا سب نُور رَو گئے ہیں
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اِسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد...