طارق شاہ
محفلین

غزل
چند افسانے سے لَوحِ دِل پہ کندہ کرگیا
مصلحت اندیش تھا، رُسوائیوں سے ڈر گیا
کتنی یخ بستہ فِضا ہے، کتنے پتّھر دِل ہیں لوگ
ایک اِک شُعلہ تمنّا کا ، ٹھٹھر کر مر گیا
ذہن میں میرے رَچا ہے اب نئے موسم کا زہر !
سوچ کے پردے سے، رنگوں کا ہر اِک منظر گیا
ایک مُدّت سے کھڑا ہُوں آنکھ کی دہلیز پر
ایک مُدّت سے، کوئی اِس راہ سے ہوکر گیا
شیشۂ احساس پر دُکھ کی لکِیریں بن گئیں
اِس طرح سے، دِل پہ کوئی مار کے پتّھر گیا
اب تو نظروں کی پُہنچ تک ہی، اُسے چاہو حفیظؔ
یاد کی بے کیف خوشبوؤں سے، یہ دِل بھر گیا
حفیظؔ احمد
فیصل آباد، پاکستان