فراز احمد فراؔز :::::: حیران ہُوں خود کو دیکھ کر مَیں :::::Ahmad Faraz

طارق شاہ

محفلین




غزل
حیران ہُوں خود کو دیکھ کر مَیں
ایسا تو نہیں تھا عمر بھر مَیں

وہ زِندہ دِلی کہاں گئی ہے
ہنستا تھا اپنے حال پر جب مَیں

آدابِ جُنونِ عاشقی سے
ایسا بھی نہیں تھا بے خبر مَیں

واسوخت کبھی نہ مَیں نے لِکھّی
رویا بھی کبھی جو ٹُوٹ کر مَیں

صیّاد پرست جو بھی سمجھیں
زنداں کو سمجھ سکا نہ گھر مَیں

تھا میرا گُریز بھی تصادم
تھا دامِ عدُو سے باخبر مَیں

یہ میرا چَلَن نہ تھا، کہ رہتا
لب دوختہ و فتادہ سر مَیں

شُعلے کی طرح فصِیلِ شب سے
نِکلا ہُوں، حِصار توڑ کر مَیں

سُقراط نہ تھا، پہ سچ کی خاطر
پِیتا رہا زہر بیشتر مَیں

منصور و مسیح گو نہیں تھا
ہر عہد میں تھا صلیب پر مَیں

گوتم کی طرح رشی نہیں تھا
لیکن نِکلا ہُوں تج کے گھر میں

جب شہر دوکانِ شِیشہ گر تھا
سب سنگ بدست تھے، مگر مَیں

اے شام کے آخری پرِندے!
مَیں بھی تِرے ساتھ ہُوں ٹھہر میں

تُو بھی ہے مِری طرح اکیلا
تنہا سفروں کا ہمسفر مَیں

ٹُوٹا ہُواتِیر ، تیرے دِل میں!
اور اپنے لہُو میں تر بتر مّیں

تُو میری طرح ہے بے نشیمن
اور تیری طرح ہُوں بے شجر مَیں

احمد فراؔز





 

ثقیل ساقی

محفلین
حیران ہُوں خود کو دیکھ کر مَیں
ایسا تو نہیں تھا عمر بھر مَیں

وہ زِندہ دِلی کہاں گئی ہے
ہنستا تھا اپنے حال پر جب مَیں
 
Top